Pages

12/27/2011

انٹرویو !!!

کم بخت جتنے فائنل انٹرویو ہم نے نوکری کے لئے دیئے سب میں فیل ہوئے!! اول اول ہم فوجیوں کے ہاتھ لگے ہوا یوں کہ پی ایف کالج میں پاکستان فضائیہ والوں کی ٹیم آئی انہوں نے فضائی فوج سے متعلق ایک معلوماتی لیکچر دیا پھر طالب علموں کو پاک فورس کی طرف راغب کرنے کو پریزینٹیشن دی اور بعد میں چند ایک کا ٹیسٹ لیا! نتیجہ چند ایک طالب علموں کو بتایا آپ بارہ جماعتیں پڑھ لینے کے بعد کس پوسٹ کے لئے قسمت آزمائی کرنا!! ہمیں کہا کہ Aeronautical engineer کے لئے جانا!! ہم گئے ISSB کے بعد ہمیں منہ ہی نہیں لگایا!! وجہ ذومعنی سوچ!!!
پھر جب کریجویشن میں تھے پی آئی اے میں flight steward کے لئے اپلائی کیا تو فائنل انٹرویو میں دیسی لہجے میں ولایتی زبان بولنے اور رنگ سانولا ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی چونی اٹھوا دی!!!
جب ہم قانون کے طالب علم تھے تو پولیس میں ASI کی نوکری کے لئے اپلائی کیا!! وہاں بھی فائنل انٹرویو میں کامیابی نہ مل سکی!!
آج کل سرکاری وکیل کے لئے انٹرویو دیا ہوا ہے امید ہے سابقہ ریکارڈ نہیں توڑ پاؤں گا!! اس کے علاوہ ایک اور بار جج کے لئے اپلائی کیا تھا مگر تحریری امتحان میں ہی فیل ہو گیا!!! اب تک یہ پانچ جگہیں ہی ایسی ہے جہاں ہم نوکر ہونے گئے مگر ناکام رہے اوریوں تین میں انٹرویو میں اور ایک بار تحریری امتحان میں نامراد لوئے!!! ایک کا ابھی انتظار ہے!!! اس کے علاوہ ہم نے جب بھی انٹرویو دیا کامیاب ہوئے!!دو تین مرتبہ انٹرویو میں کامیاب ہونے کے باوجود اس لئے نوکری جو تنخواہ وہ دے رہے تھے وہ کم تھی یا جانے والوں کی طرف سے ہمیں یہ باور کروایا کہ اس انٹرویوں میں کامیابی اُن کے مرہون منت ہوئی ہے۔
میز کے اُس طرف انٹرویو دینے کے ایسے تجربے سے ہم اب تک گھبراتے ہیں!!! مگر گزشتہ دنوں ہم میز کی دوسری طرف جا بیٹھے یعنی انٹرویو لینے والوں میں!!! وہ بھی صنف نازک یعنی خواتین کا!! جو ایک الگ کی تجربہ تھا!!!تین ناکام انٹرویوز میں فیل ہونے کے بعد انٹرویو کرنے کا تجربہ درحقیقت نہایت انوکھا تھا!! انٹرویو والے پینل میں شامل دیگر دونوں احباب ہمارے استاد تھا!!ایک سابقہ وفاقی وزیر قانون پروفیسر شاہدہ جمیل اور دوسرے سابقہ جنرل سکرٹیری کراچی بار ایسوسی ایشن و موجودہ ممبر سندھ بار کونسل محترم ندیم قریشی (میں نے اپنی وکالت کا آغاز ان ہی کے چیمبر سے کیا تھا) اُن کے ساتھ یوں بیٹھنا جہاں ایک اعزاز تھا وہاں اُن کے تجربوں سے مجھے اپنی کی گئی تمام غلطیوں کا ادراک بھی ہوا!
باقی لوگوں کو پرکھنا جتنا آسان لگتا ہے اُتنا ہے نہیں امتحان لینے والا انتخاب کے وقت خود ایک امتحان میں ہوتا ہے، بہت مشکل ہے یہ امتحان جب ایسے افراد بھی آپ کو پرکھنے ہو جو کہ آپ کے جاننے والوں میں شامل ہوں! تعلق بد دیانتی و نا انصافی کی طرف مائل کرتی ہے تب دراصل دوسروں کو پرکھنے کے بجائے منصف خود کو پرکھنے لگتا ہے !!! یہ بات تجربے سے معلوم ہوئے!! اور اپنی نظروں میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انصاف ہو۔

12/11/2011

توبہ توبہ!! ابے یہ کرتا کیا ہیں؟پتا تو چلے

ہمارے ایک بہت پیارے دوست نے ایک دفعہ اپنا ایک سچا قصہ ہم سے شیئر کیا! اول تو قصہ بہت عمدہ تھا دوئم ہمارے اُس دوست کو جیسے قصہ گوئی کا فن آتا ہے سن کر ہنس ہنس کر ہم بے حال ہو گئے ہمیں وہ قدرت تو حاصل نہیں مگر قصہ آپ سے شیئر کرتے ہیں۔
بقول ہمارے دوست کے وکالت کے آغاز میں انہوں نے اپنے علاقے میں ایک دفتر کھولا اور دفتر میں دیگر دفتری اشیاء کے ساتھ ایک ٹی وی میں لگوا لیا! جس پر کیبل کا کنکشن حاصل کیا۔ آغاز وکالت فراغت کے دن ہوتے ہیں لہذا ایسے ہی ایک فراغت کےوقت میں ہمارے دوست کیبل پر انگریزی فلم دیکھ رہے تھے تو اُس کا ایک دوست جو مولوی تھا آفس میں آ گیا ہمارے دوست نے چینل نہ بدلہ دونوں گفتگو میں مصروف ہو گئے مگر نظر بیشتر اسکرین پر مرکوز رہتی کہ اتنے میں وہ “سین” بھی فلم کے کسی ایکٹ میں آ گیا جس میں فلم کے دو کردار اپنی محبت کا “عملی” مظاہرہ کرتے نظر آئے “مولبی” کی موجودگی کی بناء پر ہمارے دوست نے چینل بدلنے کو ریموڑٹ اُٹھا تو “مولبی” گویا ہو “رہنے دوں ہم بھی دیکھیں یہ خبیث کرتے کیا ہیں” پھر وہ محبت کے “عملی”اظہار میں آنی والی شدت کے ساتھ ساتھ ذیادہ جذباتی انداز میں بولتے “اوئے اوئے خبیث” “توبہ توبہ”” استغفار” “خبیث اوئے”۔
یہ ہی حال ہمارے میڈیا کا ہے! وہ بھی کسی عمل غلط کو ذکر کرتے، عکس بندی کرتے، اُس پر بحث کرتے، اُس پر تنقید کرتے اور اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے “اوئے اوئے خبیث” “توبہ توبہ”” استغفار” “خبیث اوئے” تو کرتے ہیں مگر ایسے کہ نہ صرف اُس عمل “بد” کی تشہیر ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں سے ایک طبقہ ایسا پیدا ہو جاتا ہے جو اُس عمل کو واہ واہ کرتے داد دیتا نظر آتا ہے۔
آج کل میڈیا میں صدر صاحب کے بیرونی ملک جانے کے بعد جو خبر لوگوں کے دماغوں پر سوار ہے وہ ایک پاکستانی اداکارہ( طوائف و کنجری کہنا بھی درست ہو گا کیوں کہ اعمال کو دیکھتے ہوئے یہ اُس کا پروفیشن ہے اُس کیلئے گالی نہیں) کے بھارت میں کپڑے اُتار کر تصاویر بنوانا ہے۔ کہانی ISI کے ٹیٹو سے شروع ہوئی اور اب انکار سے ممکنہ اقرار کی طرف گامزن ہے۔ تین (پہلی، دوسری اور تیسری) جاری کردی تصاویر کو وجہ تنازعہ بنایا جا رہا ہے، بالغان کے رسالے کے لئے اب برقعہ پہن کر تو تصاویر نہیں اُتاری جانے سے رہے، اس بندی کا ماضی ایسا ہے کہ ملکی سطح پر بھی ماڈلنگ کے آغاز میں ایک ایسا فوٹو شوٹ کروا چکی ہے۔ لہذا ایسی طوائف مزاج خواتین کو میڈیا میں جگہ نہ دی جائے تو بہتر ہے مگر اچھے بھلے بیک گراونڈ والے ادارے بھی بھیڑچال میں وجہ تشہیر بن جاتے ہیں۔ ایسی خواتین کو اپنے گھر والے تعلق سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
باقی کیا کہنے ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو برقعہ پوش عورت کو اپنے حق سے نا واقف و جاہل قرار دیا ہے مگر برہنہ ہونی والی خاتون کو بہادر و با ہمت قرار دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کا کیا علاج ہے؟