Pages

6/28/2010

ناکام امیدوار

“تم انٹرویوں کے لئے تیار ہو؟"
جی جناب
“اچھا یہ بتاؤ عوام کہ بارے میں تمہاری کیا رائے ہے"
جی بہت تیز و سمجھدار ہوتی جارہی ہے اب انہیں دھوکے میں رکھنا ممکن نہیں!
“اچھا! یہ بتاؤ تمہیں اس عوام کے لئے سوچنے کو کس ملک کی فضاء بہتر معلوم ہوتی ہے"
جی ان کے لئے سوچنے کے لئے ان کے درمیان میں ہی رہنا ضروری ہے، ان سے دور جا کر کیسے ان کی پریشانیوں کے بارے میں جانا اور اُن کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے! ناممکن
“خیر یہ فرض کرو میں تمہارا کزن لگتا ہوں کل شام تم نے میرے گھر پر میرے ساتھ کھانا کھایا ہے میرا تعلق تمہاری مخالف جماعت سے ہے آج ایک پارٹی میٹنگ میں تم نے میرے بارے میں اپنی رائے دینی ہ"
جناب میں کیسے اپنے خاندان کے فرد کو صرف سیاسی اختلاف پر ذاتی سطح پر تنقید کرنے ہے۔ “اچھا تم اپوزیشن میں ہو تمہاری مخالف پارٹی تمارے علاقے کے لوگوں میں امداد تقسیم کرتی ہے! اس پر تم کیا بیان جاری کرو گے"
یہ کہ میں ہر اچھے کام موجودہ حکومت کا ساتھ دوں گا
“تمہاری تعلیم کتنی ہے؟"
جی ایم اے کیا ہے
“اصلی ڈگری ہے؟"
جی سو فیصد
“آپ ہماری پارٹی کے رکن نہیں بن سکتے آپ ایک ناکام امیدوار ہے! سیاست آپ کے بس کا کام نہیں"

6/18/2010

لطیفہ مگر ۔۔۔۔

آپ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں،اُس پیشہ یا شعبہ کے کچھ معاملات، پیش آنے والے واقعات یا حالات کی ترجمانی کے لئے چند قصہ یا لطیفہ ضرور ہوتے ہیں، اس کا ایک تجربہ ہمیں این سی سی میں ہوا کہ فوجیوں کے جو لطیفہ ہم نے سُنے وہ یہاں بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے آپ نے سنے ہیں تو جانتے ہوں گے وجہ، اب عوامی مزاج کو سمجھنے کے لئے آپ موجودہ دور کے ایس ایم ایس کو پڑھ لیں، یوں آپ عام آدمی کی سوچ سے با آسانی واقفیت حاصل کر لیں گے۔
دلچسپ بات یہ کہ اگر آپ اپنے موبائل پر آنے والے ہر روز کے ایس ایم ایس بھیجنے والے کی شخصیت کا جائزہ اُس کی طرف سے آنے والے روزانہ کے ایس ایم ایس سے جان سکتے ہیں۔ یہ ہی حالت آج کل ٹویٹر و شوشل نیٹ ورک کی دیگر سائیٹ پر اپنی دوستوں کے اسٹیٹس اپ ڈیٹ سے لگا سکتے ہیں ہے کہ نہیں؟ شاید اس لئے ہی یار لوگوں کو پرائیویسی کا بہت خیال ہے، آپس کی بات ہے جس قسم کی باتیں ہمیں نعمان نے اوبنٹو پارٹی میں فیس بک و گوگل سے متعلق بتائی تھی اُس کے بعد تو ۔۔۔۔۔ گولی مارو کیا فکر کرنی۔
تو بات ہو رہی تھی شعبہ سے متعلق لطیفہ کی جو حسب حال ہوتے ہیں۔ وکالت کے کچھ لطیفہ جو شیئر کرنے کے قابل ہوتے ہیں وہ ہم نے پہلے بھی بلاگ پر لکھے ہیں۔ ایک ذیل میں ہے۔
ایک بزرگ وکیل کا بیٹا باہر سے پڑھ کر واپس آ یا، بزرگ نے بیٹے کو کام سمجھایا اور پھر حج کے لئے ملک سے باہر چلے گئے حج سے واپسی پر دفتر کا چکر لگایا تو جانا آفس کے آدھی سے ذیادہ کیس کی فائیلز روزانہ کی ڈائری شیٹ میں نہیں تھی۔ بیٹے سے استفسار کیا تو اُس نے سینہ ٹھوک کر کہا ابا سارے جیت گیا۔ بزرگ وکیل نے سنا تو غصہ سے بولا "لعنتی اُن کیسوں سے میں نے تیری تعلیم کا خرچہ پورا کیا ہے ابھی شادی کرنی تھی تو نے کیس ہی ختم کر دیئے۔

آج کل ہمارا حال بھی اُس نوجوان وکیل کا سا ہے کیس دنوں میں ختم ہو جاتا ہے، اور کامیابی کا شیئر بھی نوے فیصد ہے۔ مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ سائل سے جتنے میں بات ہوتی ہے وہ مکمل فیس دیئے بغیر اپنا کام کروا کر رابطہ نہیں کرتا، دوسرا سینئر سے یہ سُن سُن کر یہ لارڈ کا پیشہ ہے دل نہیں مانتا بقایا پیسوں کے لئے اُسے فون کیا جائے، کچھ گھر والوں کی تربیت۔۔۔۔۔
خیر جان دوں ایسا کریں آب اپنے شعبہ سے متعلق کوئی لطیفہ شیئر کریں خواہ آپ کے حسب حال نہ ہو۔۔۔۔

6/15/2010

خود سے قریب آوازیں

بنیادی طور پر وہ ہی چیز ہمیں اچھی لگتی ہے جو اپنے سے قریب معلوم ہو۔ شاید اس لئے ہی گانے میں بھی ہمیں یا مجھے وہ ہی آواز اچھی لگتی ہے جس میں سےاپنی مٹی کی خوشبو آئے۔ پاپ گانے بھی تب ہی زیادہ بھلے معلوم ہوتے ہیں جب اُن میں علاقائی رنگ موجود ہوں۔ پرانے گلوکاروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی آواز میں مٹی کی خوشبو موجود ہے مگر چند نئی آوازیں اب بھی ایسی ہے جو روح کے قریب معلوم ہوتی ہیں، اور ایسی آوازیں اُن گھرانوں سے تعلق رکھے جن کا تعلق گانے بجانے سے نہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی مٹی کی تاسیر بھی اپنا وجود رکھتی ہے جیسے اس سے قبل اکرم راہی کا نام پنجاب سے آیا، اج بھی پیجاب میں سب سے زیادہ میڈیا پبلسٹی کے بغیر اُس کی کیسٹ فروخت ہوتی ہیں وہ کیا کہتے ہیں انگریزی میں ہوٹ کیک کی طرح۔
ایک ایسا ہی نام معصومہ انور کا ہے، اب تک ان کی ایک ہی البم مارکیٹ میں آئی ہے، شوقیہ گلوگار ہیں، پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، اسلامآباد کی رہائشی، کالج لیول پر آل پاکستان گلوکاری کا مقابلہ جیتنے کے بعد سرکاری ٹی وی پر نظر آئیں۔ ہمارے گھر والوں کو ان کا گانا "کملی" لگتا ہے، ذیادہ تر صوفی کلام گاتی ہیں۔ اردو گانا سننے والے "کلام اقبال" سن کر جوہر کا اندازہ لگا لیں! اور ہمیں تو ان کی آواز میں "وے اسا تینوں کی آکھنا"پسند ہے۔

6/13/2010

قائداعظم، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ؟

اس کالم کامقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان قبل 9اگست 1947 کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کاترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوااور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23فروری 1949کو حکومت ِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلبہ اوربزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اورلکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کاکہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کااستعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیاجاسکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یاپھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کاذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پریہ ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918 میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑاساعرصہ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلاگیا۔ وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistan کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم  نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9اگست کو بلا کر پاکستان کاترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایاگیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن کو 1979 میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میراپہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویرکے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سرتاپا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کاحوالہ دے سکتاہوں۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یاماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کامعتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اورکہاکہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کرمل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کاکہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam ۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25اپریل 1948تک کے عرصے کااحاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کاجائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نیقائداعظم کی 3جون 1947 والی تقریرکااردو ترجمہ آل انڈیاریڈیو سے نشر کیاتھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7اگست 1947 کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارااہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اورصرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہرثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھرساتھ ہی رہے۔ خدا کاشکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کانام قائداعظم سے سنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجاناچاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947 میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھررہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کاتصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں ۔ عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کاشوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979 میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی آزاد کا نام نہیں ہے۔ وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کاکوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949 تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 15اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔
پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو
ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا ”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیو ز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14اگست سے21 اگست 1947 تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔ 18ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949 تک نشر ہوتارہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیاں ہیں“ (1982) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا اس کاذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کاذکر کرتا۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتارہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔
قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اوربغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے۔

جنس سے فحاشی تک

جہاں جنس کا ذکر آئے یار لو کمرے کے دروازے کی طرف ضرور دیکھتے ہیں پھر اطمینان کرنے کے بعد ماؤس آگے بڑھاتے ہیں۔ اب کیا کہا جائے اردو بلاگنگ کے بلاگز اب اپنی تحریروں تاریک گوشوں کا ذکر کرتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے یہ ادب ہے!
آج سے چھ سال پہلے پاکستانی sex کافی گوگلتے تھے، اتنا کہ گوگل رجحان میں ابتدائی دس ممالک میں ملک کو نام بھی شامل ہو گیا تھا مگر اب اس میدان میں بھی پستی کا سامنا ہے ممکن ہے یہ ملک میں انتہاپسندی کے فروغ کی بنا پر ہوا ہو۔
بات یہ ہے کہ آج ہم اس بلاگ پر پہنچے جہاں علی نے بھارتیوں کو اس بناء پر ٹھرکی قرار دیا کے removing لکھنے پر گوگل انڈیا عوامی رجحان کی جانچ کی بناء پر نامعقول الفاظ تجویز کرتا ہےجبکہ گوگل بین الاقوامی شریفانہ الفاظ تجویز کرتا ہے جس کا اندازہ ذیل کی تصاویر سے لگا سکتے ہیں۔

اب گوگل انڈیا

ویسے گوگل پاکستان بھی اچھے تلاش کے الفاظ تجویر نہیں کرتا ذیل سے اندازہ لگا لیں۔

6/11/2010

اب میں کیا کرو؟ بلکہ نہیں اب ہم کیا کریں؟

“بھائی یہ آپ نے نام سے کیسے کیسے تبصرے آ رہے ہیں؟"
آج جب میں رات میں آن لائن آیا تو ایک محبت کر نے والے دوست نے ہم سے سوال کر ڈالا۔ بات کا علم نہیں تھا! کیا جواب دیتے اُلٹا ہم حیران تھے یہ کیا پوچھ رہے ہیں آیا واقعی مجھ سے پوچھا ہے یا کسی اور سے بات کرتے کرتے غلطی سے ہمارے والے IM میں یہ ٹائپ کر دیا ہو گا، وہاں سے جواب انے سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر نے اُس کا انٹرنیٹ پر ہماری شناخت کے سرقہ کی کہانی فاش کی۔ یعنی کسی صاحب نے ہماری تصویر و بلاگ ایڈریس کے استعمال کرتے ہوئے ایک ساتھی بلاگر کی تحریر پرنہایت گھٹیا تبصرہ کیا ہے۔
پانچ سالہ بلاگنگ میں احباب ضرور میرے مزاج و خیالات سے واقف ہو چکے ہو گے!
جعفر کے تبصرہ سے معلوم ہوا کہ وہ صاحب ملک سے باہر ممکنہ طور پر یو اے ای میں ہوتے (یہ اندازہ انہوں نے کس طرح لگایا وہ ہی بتا سکتے ہیں شاید IP ایڈریس جعفر کے علم میں آ گیا ہو) ہیں۔ ابھی تو تبصرہ نگار نے ایسا تبصرہ کیا جس سےبا آسانی اندازہ ہو گیا کہ تبصرہ نگار نے شناخت چوری کی ہے مگر مستقبل میں ہر تبصرے کو پرکھنا آسان نہ ہو گا! اور یہ امکانیا خدشہ بھی جنم لیتا ہے کہ کہیں بلاگرز میں موجود نظریاتی اختلاف کو شناخت کے سرقہ سے ذاتی رنجش و دشمنی میں بدلنے کا کوئی کوشش نہ شروع ہو جائے۔ پہلے ہی بے نام کے تبصروں نے اردو بلاگرز کی دنیا میں کافی کڑواہٹ ملا دی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ کوئی لائحہ عمل بنانا چاہئے! آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
میری شناخت والے کسی بھی تبصرہ کو سنجیدگی سے لینے سے پہلے مجھ سے یہ بذریعہ ای میل یا فون کال یہ کنفرم کر لیں کہ آیا یہ تبصرہ میں نے ہی کیا ہے یا نہیں دوئم میں یہ سمجھتا ہوں ہماری (تمام بلاگرز کی) یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی اقدامات کی حوصلہ شکنی کریں۔ اس کا بہتر حل میرے مطابق ایسے تبصروں کو حذف کرنا ہی ہے، اپ کی کیا رائے ہے؟
کیا مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ میرا کیا ہوا تبصرہ نہیں ہے؟


اپڈیٹ!! میں شکر گزار کو عثمان کا کہ انہوں نے اُس "آزاد بلوچ" والے تبصرہ سے میرا ای میل ایڈریس ہٹا دیا ہے نیر تبصرہ نگار کی آئی پی ایڈریس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوریا میں ہے اور وہ KOREA TELECOM کا صارف ہے۔

6/06/2010

دھنک

کراچی میں پیٹ (طوفان) آتے آتے رہ گیا دت تیرے کی!! کل شام میں ہم سمندر کنارے بھی گئے تھے تب ہی سمندر نے ہمیں مایوس کیا تھا! پھر بھی لگا کہ شاید ہم توفان سے آمنا سامنا کر لیں مگر !!!! چلو جان دو فیر کدی سہی!
اس طوفان کو ہمارے سروں پر میڈیا نے سوار کیا تھا!!! ہمارے گھر میں تو کیبل نہیں مگر جن کے گھروں میں ہے اور خاص کر جو کراچی سے باہر ہیں انہوں نے تو اتنا گھر والوں کو ڈرا دیا تھا کہ لگتا تھا کہ ہفتہ دو ہفتہ عدالت کشتی پر آنا جانا ہو گا ۔ ویسے جس قدر ڈرایا گیا طوفان کو القاعدہ کا ممبر یا پنجابی طالبان کا ساتھی بتا دینا چاہئے!! ٹویٹر پر صبح سے یار لوگ آگاہ کر رہے تھے کہ اتنا دور رہ گیا اتنے وقت میں پہنچ جائے گا اور یہ اور وہ۔ مگر ہماری قسمت میں ہی طوفان ہے جو طوفان سے آمنا سامنا نہ ہو سکا ورنہ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں! طوفان کے نہ آنے کا الزام روشن خیال بہن کی زبانی معلوم ہوا لوگوں نے سمندر کنارے والے بابا پر لگایا ہے۔
پیٹ کی وجہ سے کراچی میں بارش ہوئی کافی ہوئی رات کو جب ہو رہی تھی تو ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے! دن میں اس سے کچھ لطف اندوز ضرور ہوئے ہیں! بارش کے بعد کراچی میں دھنگ دیکھی گئی ہے چند تصاویر ذیل میں ہیں اس دھنک کی۔



بشکریہ ایم شعیب یاسین


بشکریہ محمد ایاز


بشکریہ رابعہ


بشکریہ علی رضا عابدی

6/02/2010

کتاب چہرہ بندش کا نقصان؟؟

ہمارے اکثر دوستوں کو شکایت تھی یا یوں کہہ لیں کہ ہے فیس بک کی بندش کا کیا فائدہ؟ اور یہ وہ نا معلوم کیا کیا!! بلکہ جوان کے بچے یہاں تک کہتے ہیں کہ بندش کی وجہ سے تو اس صحفہ کی مشہوری ہوئی مگر اگر بندش نہ ہوتی تو شاید فیس بک والے از خود پاکستان میں یہ ناپاک صحفہ بند کرتی مگر ایسا اب وہ کرنے پر مجبور ہے دیکھ لیں جہاں جہاں ردعمل سامنے آیا فیصلوں پر نظر انداز ہوا ہے۔ آپمیں سے شاید اب بھی بُرا منہ بنائے مگر جان لیں کہ ردعمل ایسا ہو جو دوسرے کو ایک بار ہلا دے اور اس کرنے کے لئے جگرا چاہئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ میں سے کوئی کہے کہ یہ تو کوئی حل نہیں مگر کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر۔ ممکنہ ایسے بین کے خوف سے بھارت میں بھی فیس بک نے یہ ہی پالیسی اپنائی نیر اب بنگلادیش سے متعلق می اپس نے از خود بندش والی پالیسی اپنائی ہے۔
 خبر کا حوالہ دینا ضروری ہے کیا؟؟؟ پی سی ورلڈ دیکھ لیں۔ اور کچھ مالی مفاد پاکستان سے وابستہ تھے تو عدالت میں فیس بک نے اپنا وکیل کھڑا کیا تھا ناںآآآآ