Pages

7/27/2009

دیہاڑی دار

اِک دیہاڑے انکّھاں والا اک مزدور
سڑک کنارے
وانگ کبُوتر اکھّاں مِیٹی
تِیلے دے نال ماں دھرتی دا سینہ پھولے
خورے کنک دادا نہ لبھّے
رمبّا کہئی تے چِھینی ہتھوڑا
گینتی اپنے اَگے دھر کے
چوری اکھّیں ویکھ کے اپنے آل دوالے
کر کے مُوہنہ اسماناں ولّے
ہولی ہولی بھیڑے بھیڑے اَکھّر بولے
اُچّی اُچّی
اُچیا ربّا، سچیا ربّا، چنگیا ربّا
تو نہیوں ڈبیاں تارن والا
ساری دنیا پالن والا
جتّھوں کل اُدھار اے کھاہدا
اُوتھے وی اے اج دا وعدہ
میری اج دیہاڑی ٹُٹّی
میرے دل چُوں تیری چُھٹّی
اُچیا ربّا سچیا ربّا چنگیا ربّا
پنجاں کلیاں مگروں جہیڑا
میرے ویہڑے کھِڑیا پُھل
باہحھ دوائیوں
پُونی ورگا ہوندا جاوے
میرے مستوبل کا دیوا
ویکھیں کِدھرے بُجھ نہ جاوے
اُچیا ربّا سچیا ربّا چنگیا ربّا
اَج نئیں جانا خالی ہتھ
ویچاں بھانویں اپنی رت
شاعر: بابا نجمی

7/12/2009

کیا یہ بھی کوئی انقلاب ہے؟؟

میں نے کافی پہلے یہ لطیفہ سنا تو اسے اپنے بلاگ پر آپ لوگوں سے شیئر کر لیا، دوبارہ شیئر کر لیتا ہوں لطیفہ کچھ یوں تھا ۔
"ایک ملک میں انقلاب آیا۔اس ملک کا ایک باشندہ جو انقلاب سے قبل بیرونی ملک کے دورے پر تھا واپس آیا تو ائرپورٹ سے نکل کر اس نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا "کسی نزدیکی دکان پر ٹھہرجانا، مجھےسگریٹ خریدنا ہے"۔
"سگریٹ خریدنے کے لئے آپ کو چرچ جانا پڑے گا"۔ڈرائیور نے جواب دیا ۔
"کیا؟ چرچ تو وہ جگہ ہے جہاں عبادت کی جاتی ہے "۔
"لوگ عبادت کے لئے یونیورسٹی جاتے ہیں"۔
"کیا؟ یونیورسٹی میں تو وہ لوگ نہیں ہوتے جو پڑھتے ہیں؟"۔
"نہیں پڑھنے والے تو جیل مہں ہوتے ہیں"۔
ڈرائیور نے کہا "جیل میں تو مجرم ہوتے ہیں"۔
"اوہ نہیں، وہ تو برسر اقتدار ہیں"۔
ہمیں نہیں معلوم تھا یہ لطیفہ کبھی حقیقت بھی بن سکتا ہے اس حقیقت سے واسطہ کہیں اور نہیں اپنے ملک میں ہی ہمارا پڑے گا۔ 
پہلی مرتبہ اس انقلاب کا علم اُس وقت ہوا جب بلوے کے کیس میں مطلوب ملزم ایک صوبے کا گورنر بن گیا، دوسری مرتبہ اُس وقت ہوا جب ایک امر کی جگہ پارلیمنٹ میں نیا صدر منتخب کیا گیا۔ اب ایک بار پھر احساس ہونے لگا ہے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں یہ انقلاب آنا تھا۔ تازہ خبر پنجاب کی رکن اسمبلی محترمہ (کیا محترمہ کہنا بنتا ہے؟) شمیلہ انجم رانا، جو مسلم لیگ نون کی کی رُکن ہیں، کی کریڈٹ کارڈ چوری کی کہانی ہے۔ انہوں نے اپنی ہیلتھ کلب کی ساتھی زائرہ ملک کے دو کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کے بعد فورا ہی قریب کی دوکان سے اسی ہزار مالیت کے زیورات اور تین مردانہ جوڑے خریدے، اس تمام کاروائی خریداری کی فلم بن چکی ہے۔


محترمہ اسمبلی میں مذہبی امور اور اوقاف کمیٹی کی ممبر ہیں، IDPs کی کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کی ممبر ہیں (خدا خیر کرے)، پارٹی کی و دیگر تقریبات میں نعتیں پرھنے کی شوقین ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ ایک چور بھی ہیں۔
ہمارے ملک میں اب شاید چور و ڈاکو ہی منتخب نمائندے ہوں گے تبھی گزشتہ دنوں ہمارے موبائل پر کچھ ایسا ایس ایم ایس آیا۔
"گیارہ سال جیل میں رہنے والا ہمارا صدر، چھ سال جیل میں رہنے والا ہمارا وزیر اعظم، دس سال جلاوطن رہنے والا خادم پنجاب، انیس سالوں سے بھتہ پر لندن میں عیاشی کرنے والا ہمارا بے تاج بادشاہ۔۔۔۔۔ ارے دو چار سال آپ بھی جیل کی ہوا کھا آئیں ایمان سے زندگی بن جائے گی"
کہتے ہیں حکمران عوام کے اعمال کا آئینہ ہوتے ہیں، اگر یہ سچ ہے تو خدا رحم کرے، عوامی اعمال سے کہیں زرد انقلاب تو نہیں آ گیا؟