Pages

4/26/2009

سوات معاہدہ اور نظام عدل!

جب سے حکومت و صوفی محمد میں معاہدہ ہوا ہے یار لوگوں نے خیالات کے گھوڑے ڈوڑانا شروع کر دیئے ہیں کسی نے حمایت کی اور کوئی مخالف ہے۔  معاملات کو اُس وقت تک سمجھنا ناممکن ہو گا جب تک فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدہ و اُس کے نتیجے میں جاری ہونے والے نظام عدل کا نہ دیکھ لیا جائے!!
معاہدہ کے اعلان پر کُل نو افراد کے دستخط ہیں، جن میں چھ (صوبائی) حکومت کے نمائندے اور تین تحریک تنظیم نفاذ شریعت کے ممبران کے! دلچسپ یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ ہے کہ حکومت وقت نے ایک ایسی تنظیم سے معاہدہ کیا جسے وہ کالعدم قرار دیتی ہے۔
اگر اعلان کے متن کو دیکھے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نیا عدالتی نظام رائج کیا جائے گا!
“ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ کے نظام عدالت کے تعلق میں جتنے غیر شرعی قوانین یعنی قرآن اور حدیث کے خلاف ہیں وہ موقوف اور کالعدم تصور ہونگے یعنی ختم ہونگے۔ اسی نظام عدالت میں شریعت محمدی جس کی تفصیل اسلامی فقہ کی کتابوں میں موجود ہے اور اس کے ماخذ چار دلائل ہیں، کتاب اللہ، سنت رسول، اجماع، قیاس و جو اب بافذالعمل ہونگے اس کے خلاف کوئی فیصلہ قبول نہیں ہو گا۔ اس کی نظرثانی یعنی اپیل کی صورت میں ڈویژن کی سطح پر درالقضاء یعنی شرعی عدالت بینچ قائم کر دیا جائے گا جس کا فیسلہ حتمی ہو گا۔“
یعنی دونوں فریقین ضلعی سطح پر نظرثانی کے لئے حتمی عدالت کے قیام پر متعفق ہیں جسے وہ دارلقضاء کا نام دیا گیا!۔ نیا نظام عدل حکومت تنہا لاگو نہیں کرے گی درج ہے کہ
“حضرت صوفی بن حضرت حسن کے باہمی مشورے سے عدالتی شرعی نظام کے ہر نقطے پر تفصیلی غور کرنے کے بعد اس کا مکمل اطلاق ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ میں امن قائم کرنے کے بعد باہمی مشورے سے کیا جائے گا۔“
مطلب یہ کہ جو بھی عدالتی نظام نافذ ہو گا وہ جناب کے مشورے سے ہو گا! اور شرط امن ہے شاید تب ہی امن ہو گیا! اس اعلان کے علاوہ کسی اور دستاویز پر میرے علم کے مطابق دونوں فریقین میں سے کسی نے کوئی دستخط نہیں کئے!! لہذا غیر مسلح ہونے والی بات نامعلوم کیوں کی جاتی ہے؟ کہیں اور باتیں بھی منسوب کی جاتی ہیں اگر کوئی ہے تو منظرعام پر کیوں نہیں لایا جاتا؟
اب اگر اس اعلان (معاہدہ) کے نتیجے میں نافذ ہونے والے “نظام عدل ریگولیشن“ پر ایک نظر ڈالے تو بھی کافی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں! مثلا دفعہ 2 (b)  کے تحت “دارلدارلقضاء“ سپریم کورٹ کے بنچ کو کہا گیا!  دفعہ 2 (c) کے تحت “دارلقضاء“ دراصل ہائی کورٹ کا بنچ ہو گا!  دفعات ذیل میں ہیں!

دفعہ 2 (b)

Dar-ul-Dar-ul-Qaza” means the final appellate or revisional court, in the said area, designated as such, under this Regulation in pursuance of clause 2 of Article 183 of the Constitution of the Islamic republic of Pakistan

دفعہ 2 (c)

“Dar-ul-Qaza” means appellate or revisional Court constituted by Governor of North West Frontier Province in the said area, under clause 4  of the Article 198 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan

دفعہ 2 (g) کے تحت جج کو قاضی کہا گیا ہے، اس دفعہ کی روشنی میں District and Sessions Judge  کو ضلع قاضی، Additional District and. Sessions Judge  کو اضافی ضلع قاضی، Senior Civil Judge/Judicial  کو اعلیٰ علاقہ قاضی اور Civil Judge/Judicial Magistrate  کو علاقہ قاضی کہا جائے گا! یوں درحقیقت ایک طرح سے لگتا ہے کہ یہ انگریزی اصلاحات کو اردو ترجمہ کیا گیا! مگر اصل اضافی خاصیت (لازمی نہیں) جو اس رکھی ہے جج (قاضی) کے لئے وہ یہ کہ اُس نے شریعہ کا کورس کیا ہو دفعہ 6 (1) میں درج ہے

Any person to be appointed as Illaqa Qazi in the said area shall be a person who is a duly appointed judicial officer in the North-west Frontier Province and preference shall be given to those judicial officers who have completed Shariah course from a recognised institution


اور دفعہ 2 (h) میں یہ بیان کر دیا گیا ہے تسلیم شدہ ادارے سے مراد وہ ادارہ جو بین الاقوامی اسلامک یونی ورسٹی آردینس 1985 کے تحت بنے یا کوئی بھی دوسرا ادارہ جسے حکومت تسلیم کرتی ہو! اورقاضی اپنے فیصلوں کے سلسلے میں نہ صرف دیگر قوانین (جن کی فہرست نظام عدل ریگولیشن کے شیڈول اول کے کالم دو میں دی گئی ہے)  کا پابند ہو گا بلکہ دفعہ 9 (1)  کے تحت وہ پابند ہو گا کہ وہ کیس کا فیصلہ قرآن کریم، سنت رسول، اجماع اور قیاس کی روشنی میں کرے دفعہ میں درج ہے!

A Qazi or Executive Magistrate shall seek guidance from Quran Majeed, Sunna-e-Nabvi (PBUH), Ijma and Qiyas for the purposes of procedure and proceedings for conduct and resolution of cases and shall decide the same in accordance with Shariah. While expounding and interpreting the Quran Majeed and Sunna-e-Nabvi (PBUH) the Qazi and Executive Magistrate shall follow the established principles of exposition and inter2001pretation of Quran Majeed and Sunna-e-Nabvi (PBUH) and, for this purpose, shall also consider the expositions and opinions of recognised Fuqaha of Islam


اور (قاضی) عدالتی کاروائی کی جانچ پرتال دفعہ 6 (3) کے تحت دارلقضاء (ہائی کورٹ) اور ضلع قاضی ماتحت عدالتوں کرے گے! یاد رہے قاضی عدالتوں کا قیام دفعہ 5 کے تحت عمل میں آئے گا اور دفعہ 11 کے تحت نظام عدل کے نفاذ کے بعد جتنی جلد ممکن ہو حکومت عدالتیں قائم کرے گی (جو قائم ہو چکی ہیں بس دارلقضاء کا قیام باقی ہے جس کی پہلے آخری تاریخ 23 اپریل تھی اب مزید وقت بڑھا دیا گیا ہے)۔ اور دفعہ 12 کے تحت دارلقضاء کے فیصلوں کے خلاف اپیل دارلدارلقضاء (سپریم کورٹ) کے پاس ہو گی دفعہ میں درج ہے

Subject to the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, appeal or revision against the orders, judgment or decrees of the Dar-ul Qaza shall lie to the Dar-ul-Dar-ul-Qaza established for the purposes of this Regulation.


اس قانون کی دفعہ 19 کے تحت نظام عدل کے نفاذ کےساتھ ہی ضابطہ فوجداری آرڈینس 2001 ختم ہو جائے گا اور مزید جو میرے لئے دلچسپ تھا کہ سابقہ شرعی نظام عدل ریگولیشن 1999 بھی ختم یعنی کہ پہلے بھی جو قانون نافذ تھا اُس کا نام شرعی نظام عدل ہے!
“نظام عدل ریگولیشن“ کا اطلاق آئین پاکستان کے آرٹیکل 247 کے تحت عمل میں آیا ہے! یاد رہے آئین کے آرٹیکل 246 کے تحت سوات کا شمار “قبائیلی علاقے“ میں کیا جاتا ہے۔ اور آرٹیکل 247 قبائیلی علاقوں میں انتظامی امور سےمتعلق ہے۔ آرٹیکل 247 (3) میں صاف درج ہے کہ مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) و صوبائی اسمبلی کے دار اختیار سے وفاقی و صوبائی قبائیلی علاقے باہر ہیں اور صوبے کا گورنر صدر کی ہدایت یا اجازت سے کوئی قانون یا حکم کسی قبائلی علاقے پر نافذ کرے گا!

No Act of Majlis-e-Shoora (Parliament)] shall apply to any Federally Administered Tribal Area or to any part thereof, unless the President so directs, and no Act of Majlis-e-Shoora (Parliament)] or a Provincial Assembly shall apply to a Provincially Administered Tribal Area, or to any part thereof, unless the Governor of the Province in which the Tribal Area is situate, with the approval of the President, so directs; and in giving such a direction with respect to any law, the President or, as the case may be, the Governor, may direct that the law shall, in its application to a Tribal Area, or to a specified part thereof, have effect subject to such exceptions and modifications as may be specified in the direction


مزید آرٹیکل 247 (4)  کے تحت صدر کسی ایسے معاملے سے جس کے متعلق پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہو اور گورنر صدر کی اجازت سے کسی اسے معاملے سے جس کے متعلق صوبائی اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار  ہو ایک ریگولیشن بنا کرصوبائی  قبائلی علاقے میں لاگو کر سکتا ہے! (اس سلسلے میں پارلیمنٹ یا صبوبائی اسمبلی کی اجازت کی ضرورت نہیں)۔

Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter within the legislative competence of Majlis-e-Shoora (Parliament)], and the Governor of a Province, with the prior approval of the President, may, with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Assembly make regulations for the peace and good government of a Provincially Administered Tribal Area or any part thereof, situated in the Province


اور ایسا ہی اختیار وفاقی قبائلی علاقوں سے متعلق صدر کو  آرٹیکل 247 (5) کے تحت حاصل ہے۔ یاد رہے  آرٹیکل 247 (3) (4) کے تحت ہی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ عمل میں آیا ہے! اور  آرٹیکل 247 کے تحت بنائے جانے والے اور نافذ کئے جانے والے حکم سے متعلق پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی سے تو نہیں البتہ متعلقہ قبائلی علاقے کے رہائشیوں کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے  آرٹیکل 247 (6) میں درج ہے۔

Provided that before making any Order under this clause, the President shall ascertain, in such manner as he considers appropriate, the views of the people of the Tribal Area concerned, as represented in tribal jirga


لہذا صدر کا اس ریگولیشن کو اسمبلی میں پیش کرنے کا مقصد اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنانا نہیں بلکہ بین الاقوامی دباؤ سےبچنے کا ایک راستہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ریگولیشن جاری کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے اجازت کی ضرورت نہیں مگر اب یہ کہ جا سکات ہے کیا کریں پارلیمنٹ نے اسے منظور کیا ہے! ورنہ یہ مکمل صدر کا صوابدیدی اختیار تھا۔
اچھا ایک اور دلچسپ بحث ملک میں متوازی عدالتوں کے قیام سے متعلق سننے کو ملتی ہے کہ حکومت کی رٹ قائم نہیں رہتی اور الگ عدالتی نظام رائج ہو رہا ہے! اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل  247 (7) دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اُس میں درج ہے

Neither the Supreme Court nor a High Court shall exercise any jurisdiction under the Constitution in relation to a Tribal Area, unless Majlis-e-Shoora (Parliament)] by law otherwise provides


یعنی آئین پاکستان پہلے ہی کہہ رہا ہے سپریم کورٹ و ہائی کورٹ اپنے اختیارات قبائیلی علاقوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔ سوائے اس کے کہ پارلیمنٹ اس سے متعلق کوئی راہ نہ نکالے۔۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا رزلٹآتا ہے؟ حکومت نے نظام عدل کے ذریعے ہائی کورٹ (دارلقضاء) اور سپریم کورٹ (دارل دارلقضاء) کا اختیار سماعت ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ تک قائم کیا ہے مگر صوفی محمد سے ہونے والے معاہدہ (اعلان) کی روشنی میں دارلقضاء وہ شرعی عدالت ہوگی جو ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ کی سب سے بڑی عدالت ہو گی۔ فیصلہ وقت پر ہے ۔

نظام عدل ریگولیشن ۲۰۰۹

آئین پاکستان کی دفعات 246, 247۔

swat-agreement

4/20/2009

نذیر نا (نہ) جی؟؟ کون سے ہیں حاجی

کر لو گل! آج پی کے پولیٹکسنے احمد نورانی جو دی نیوز سے منسلک ہے کے حوالے قریب کُل بائیس منٹ پر مشتمل تین مختلف ٹیلی فون کال اپنے بلاگ پر پوسٹ کی ہے، جس کے ساتھ احمد نورانی کی ای میل بھی ہے جس میں یہ دعوٰی ہے کہ جناب نے نذیر ناجی کو اسلام آباد میں غیرقانونی پلاٹ کی منتقلی سے متعلق پوچھنے کے لئے فون کیا! اور پہلی کال کے جو کہ جمعہ سترہ اپریل کو کی گئی تھی کے جواب میں نذیز صاحب نے دو مختلف  کال کر کے احمد نورانی صاحب کو وہ وہ سنائی ہیں جو نہ تو (یہاں) بیان کی جا سکتی ہیں نہ ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسے سنے!! دھمکی بھی دی!
احمد نورانی کی اسلام اباد میں پلاٹ الاٹمنٹ پر ایک رپورٹ “دی نیوز“ میں اُس ہی تاریخ (یعنی سترہ اپریل ہی)  کو شائع ہوئی تھی۔
اچھا اگر آپ ٹیپ کی ریکارڈنگ سنے تو آ پ نذیر ناجی انصار عباسی کو بھی گالیاں دیتے سنائی دے گے ایسے میں انصار عباسی کے پلاٹ واپس کرنے کے معاملے اور آج کے کالم کی وجہ بھی سمجھی جا سکتی ہے!!!
نذیر ناجی کوئی حاجی نہیں! اُنہیں پہلے ہی کئی لوگ صحافت کا میر جعفر کہتے ہیں اوراس ریکارڈنگ کے اصلی ہونے کی کوئی گارنٹی بھی نہیں مگر اگر یہ اصلی ہے تو یہ ایک ثبوت ہے کہ صحافت کے مائی باپ کہلانے والے بھی دراصل زیر اثر ہیں لفافہ کلچر کے اور ہونے والی گفتگو بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے! میں یہاں ٹیپ پوسٹ کر رہا ہوں!

پہلی کال!

دوسری کال

تیسری کال

4/19/2009

کیا یہ قومی بلاگرز کانفرنس تھی؟؟؟

جناب کل کراچی میں  بلاگرز کانفرنس ہوئی تھی! جو کے صوبائی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت منعقد ہوئی! فاروق ستار اور کاؤس جی اُُُس کے مہمان خصوصی تھی۔ اسے قومی بلاگرز کانفرنس بتایا جا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک شبہ نہیں یہ ایک بہترین کانفرنس تھی جس میں سب سے آخری پریزنٹیشن اردو بلاگنگ کے حوالے سے دی گئی (نامکمل) اس سلسلے میں سب سے پہلےمیں ذاتی طور پر علی چشتی کا مشکور ہوں جنہوں نے اردو بلاگنگ پر پریزنٹیشن  کے لئے وقت رکھنے کی میری درخواست قبول۔ پھر نعمان یعقوب  کا کہ انہوں نے بنیادی خاکے سے لے کر  آخری شکل دینے تک  بہت محنت سے تمام مواد لکھا یا بنایا اس سلسلے میں فہد (ابو شامل) نے بھی اُن کا ساتھ دیا!  اس پریزنٹیشن کے لئے پاور پوانٹ پر سلاٗئیڈ فہد نے تیار کیں تھیں۔ اور  جمعہ (یعنی ایک دن پہلے) ان دونوں نے نعمان کے فلیٹ پر عمار کی تیاری کروائی۔ کیونکہ دونوں میں سے کوئی بھی خود تیار ناں تھا مگر انہوں نے اپنا اپنا کام بہتر طریقے سےکیا تھا! نعمان اپنے بلاگ پر اَسے شیئر کریں گے۔

اس کانفرنس میں  کراچی میں  موجود اردو بلاگرز کی اکثیریت نے شرکت کی! میرا خیال ہے صرف مکی اور علمدار شریک نہیں ہوئے۔ شکاری (عدنان زاہد) بھی کراچی کے ہیں مجھے وہاں جا کر معلوم ہوا۔  کل 350-400 میں سے صرف 7 اردو بلاگرز تھے! تصاویر اپ لوڈ کر دیں ہیں! عمار کی پریزنٹیشن کی ویڈیو م م مغل کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ  اُن کے پاس تصاویر اور ابو شامل کے صحافی دوست کے کیمرے میں بھی چند تصاویر ہیں۔

جنوبی ایشیا کی تاریخ میں یہ پہلی بلاگرز کانفرنس ہے جو سرکاری جھنڈے کے نیچے منعقل ہوئی۔  جس میں Professional Research and Advisory Council of MQM نے انہیں مدد فراہم کی یا یہ کہ لیں انہیں نے اس سلسلے میں حکومت سندھ سے مدد لی اور یہ اُن کی کاوش تھی تو درست ہو گا!

بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اس بلاگرز کانفرنس میں کراچی سے باہر کا کوئی بلاگر میرے علم کے مطابق شریک نہیں ہوا! تو ایسے میںا کیا یہ قومی بلاگرز کانفرنس ہو گی؟ یا بوجہ خاص کراچی والوں کو ہی قوم سمجھا جاتا ہے؟(یہ جملہ تعصب میں نہیں کہا گیا)

4/15/2009

لفظ، معنٰی اور زبان

اردو بلاگرز کی ایک ملاقات (اس کے بعد بھی دو ہو چکی ہیں) سے دو گھنٹے قبل فہیم آن لائن ملا پوچھے لگا “تو آپ پدھار رہے ہیں“ میرا جواب تھا نہیں میں آرہا ہو! اس میں آپ کو یقین کوئی حیرت انگیر یا ہٹ کر بات نظر نہیں آئے گی! اور یقین آپ درست ہیں کہ اُس نے وہ ہی پوچھا تھا جس کا میں نے جملے کا منفی آغاز کر کے مثبت جواب دیا مگر کئی مرتبہ اصل زندگی میں اس سے ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے!
اس سلسلے میں چند اپنے وکالت کے قصے شیئر کرنے سے قبل ایک لطیفہ آپ کے گوش گزار کرتے ہیں!
ایک شخض اپنے بیٹے کو کان سے پکڑ کر اُس کے انگریزی کے اُستاد کے پاس لائے اور word گویا ہوئے “میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس اس لئے ٹیوشن پر رکھا تھا کہ میں نے آپ کی تعریف سُنی تھی اور سوچا آپ کے پاس یہ آئے گا تو کچھ انگریزی سیکھ لیں گا آج چار ماہ بعد میں نے اس کا پہلی مرتبہ ٹیسٹ لیا اور یہ نالائق انگریزی جملے کا ترجمہ بتانے سے قاصر ہیں“ استاد محترم کافی پریشان ہوئے کہنے لگے “اچھا! چلیں آپ میرے سامنے پوچھے“ بندہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہوا! “چلو بتاؤ I don't know کا مطلب کیا ہے؟“ لڑکے نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا “میں نہیں جانتا“ وہ بندہ اُستاد سے مخاطب ہوا “دیکھا آپ نے اِسے نہیں آتا“ اب اُستاد کا جواب کیا تھا یہ آپ خود ہی سوچ لیں!
بہر حال ایسے ہی چند قصے ہماری اس چھوٹی سی وکالت کی پیشہ ورانہ زندگی کے بھی ہیں!
ایک فیملی کیس پری ٹرائل پر تھا پری ٹرائل  کیس (جس میں خاتون خلع کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے) میں وہ اسٹیج ہوتی ہے جس میں جج دونوں فریقین کو اپنے چیمبر میں آمنے سامنے بیٹھا کر اُن میں صلح کی ایک کوشش کرتا ہے کہ گھر بچا رہے! اور ناکامی کی صورت میں نکاح ختم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ایک ہی صورت ہے جو معاملہ کو لٹکاسکتی ہے وہ یہ کہ مرد کہہ دے کہ میں نے خاتون (بیوی) کو حق مہر ادا کر دیا ہے پھر عدالت عورت کو پابند کرتی ہے کہ وہ حق مہر واپس کرے گی تو نکاح ختم کردیا جاتا ہے! ورنہ اس معاملہ پر کیس چلتا ہے کہ مرد وعورت میں کون سچ کہہ رہا ہے۔ ایسے ہی ایک پری ٹرائل میں سینئر نے مرد (وہ گھر بچانے کا آرزو مند تھا) کو کہا اگر بیوی صلح نہ کرے تو جج کے پوچھنے پر کہہ دینا کہ میں آدھا حق مہر ادا کرچکا ہوں! پری ٹرائل کے بعد جب دونوں باہر آئے تو معلوم ہوا کہ جج نے خلع گرانٹ کر دی ہے پوچھا میاں اندر جج سے یہ نہیں کہا تھا کیا کہ آدھا حق مہر ادا کر چکا ہوں! کہنے لگے“ اُس نے پوچھا ہی نہیں! بس اتنا کہا تھا کہ آپ نے دادی ماؤنٹ دی ہے“ میں نے کہہ دیا کہ نہیں! میری شادی سے پہلے ہی ا کی دادی مر گئی تھی میں کیوں مارو گا؟“ اب وہ بندہ dowery amount کو کیا بنا گیا!دیکھ لیں!ArnoldSpanish619
ایسے ہی ایکسیڈنٹ کے کیس جن میں عدالت یہ اختیار مقدمہ کے فریقین پر چھوڑتی ہے کہ آیا وہ آپس میں صلح کرنا چاہے تو کر لیں! ایسے ہی ایک موقع پر جب ہم دونوں پارٹیوں سمیت جج کے سامنے کھڑے تھے! تو جج نے مدعی سے پو چھا “تو آپ دونوں کے درمیان Compromise ہو گیا ہے؟“ مدعی نے جواب دیا “نہیں سر“۔ جج فورا ہماری جانب متوجہ ہو “وکیل صاحب کیا کرنے جا رہے ہیں“ پہلے تو ہم حیران ہوئے یہ ہوا کیا! پھر فورا کہا “سر! دونوں پارٹیاں انگریری نہیں جانتی! آپ اردو میں پوچھے!“ اس سے پہلے ہم یہ ہی سوال اُن سے دوبارہ کرتے سرکاری وکیل صاحب نے پھر پوچھ لیا “آپ دونوں کے درمیان Compromise ہو یا نہیں“ مدعی فورا بولا “ نہیں نہیں! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اللہ واسطے معاف کیا ہے! اب ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں“۔ تب جا کر جج صاحب کو سکون آیا!
ایک ہی ایک قصہ ہمارے ایک دوست نے سنایا کہ فلاح جج کے سامنے پولیس جب ملزم کو ریمانڈ کے لئے لے کر آئی تو اُس کے ہاتھ پر پلستر چڑھا ہوا تھا! جج صاحب نے پوچھا کہ تم پر پولیس والوں نے تشدد تو نہیں کیا؟ ملزم کا جواب تھا کہ نہیں بس ہاتھ توڑا ہے!
زبان سے ناواقفیت بھی کیا کیا گُل کھلاتی ہے!

4/14/2009

انکشاف

‘اچھا یہ بتاؤ اگر تم سے کہا جائے کہ کوئی ایک خواہش بتاأؤ جو تمہاری فورا پوری ہو جائے گی جو مانگو کے ملے گا تو وہ کیا ہو گی!’

“ابے جا یار کہا ہوگی مشکل ہے!

‘پھر بھی!’

اچھا پھر تو میں بس ایک ہے خواہش کا اظہار کرو گا!

‘ہممم کون سی ؟’

یہ ہی کہ مجھے جنت مل جائے

‘واہ واہ کیا نیک خواہش کا اظہار کیا ہے’

مگر یہ ہے مشکل!

‘ارے مشکل کیوں ہے اللہ نیک مرادیں و خواہشات پوری کرتا ہے’

یار مشکل اس لئے ہے کہ سنا ہے اُس کی شادی ہو گئی ہے!

فرمان قائد

ہر شخص کو اپنے گاؤں ، قصبے اور شہر سے محبت ہونی چاہئے اور اس کی بہبود  اور ترقی کے لئے محنت کرنی چاہئے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ملک سے اپنے قصبے یا شہر کی نسبت ذہادہ محبت ہونی چاہئے اور ملک کی خاطر نسبتا زیادہ شدت سے محنت کرنی چاہئے۔


(کوئٹہ میونسپلٹی استقبالیہ میں خطاب 15 جون 1948ء)

4/13/2009

خانہ کعبہ کا راز

آج کئی احباب نے یہ ویڈیو ای میل کی ہے آپ بھی دیکھ لیں!

4/12/2009

غلط پردہ!

“توبہ توبہ کتنا غلط پردہ کیا ہوا تھا“
شاباش! پہلے تاڑ رہا تھا اب توبہ کا ڈرامہ کرتا ہوا کہہ رہا ہے پردہ غلط تھا! اوئے ویسے اُس نے پردہ کیا ہی کب تھا؟
“اچھا! تو بھی اُسے دیکھ رہا تھا؟ بہت اچھے بھائی!“
ابے! پڑ گئی نظر تیری طرح نہیں کہ گلی کی نُکر تک چھوڑ کر آؤ نظروں نظروں میں!
“اچھا اچھا حاجی صاحب نصیحتیں مت کرنے لگ جانا اب“
ٹھیک ہے یہ بتا تو نے یہ غلط پردے والا فتوٰی کہاں سے جاری کی جب کہ بی بی نے نے تو۔۔۔۔
“تجھے بڑی فکر ہے! اچھا یہ بتا کہ پردے کا مقصد کیا ہے؟“
یہ ہی کہ خود کو ایسے چھپانا کہ کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے
“تو اُنہوں نے بھی تو خود کو چھپا رکھا تھا مگر میک اپ کے پیچھے ہو گیا ناں غلط پردہ!“
لعنت ہے بھائی تم پر!

4/10/2009

پاکستان کی پہلی بلاگرز کانفرنس!

لیں جی اگر پاکستان کے بلاگرز کی ایک کانفرنس ہو جائے تو  کتنا اچھا ہو نا! اگر آپ کا جواب بلاگر ہونے کی بناء پر ہاں میں ہے تو سُن لیں ایسا ہونے جا رہا ہے! جی ہاں! پاکستان کی پہلی بلاگرز کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا ہے! وہ بھی کراچی میں! معلوم ہے کس کے تعاون سے؟ اندازہ لگائے! ذرا سوچیں تو! کون کروا سکتا ہے؟ کوئی شخض یا ادارہ؟ ممکن ہے آپ کو یقین نہ آئے ہمیں بھی پہلے پہل نہیں آیا تھا! جی ایسا آئی ٹی ڈپاٹمنٹ آف سندھ (وزارت جس کے وزیر محمد رضا ہارون ہیں) کی جانب سے ہو رہا ہے!
کوشش ہو گی اردو بلاگنگ کے فروغ کے لئے اس ایونٹ کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے! اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا تجاویز ہیں! اس سلسلے میں ایک پریزنٹیشن کی تیاری نعمان، عمار اور فہد کے ذمہ ہے جس سلسلے میں انہوں نے آپس میں ایک ربط بنا لیا ہے، ویسے نعمان نے ایک خاکہ تیار کیا ہے ابتدائی طور پر اس سلسلے میں! اگر وہ خود اُس کا لنک شیئر کرے تو اچھا ہے۔
یہ کانفرنس اب تک کی معلومات کے مطابق اٹھارہ اپریل شام چار سے سات بجے کے درمیان ریجنٹ پلازہ میں ہو گی! (پہلے پی سی بتایا گیا تھا) اس کا پوسٹر ذیل میں ہے!

BL

اپ ڈیٹ:  اب تک مجھ غریب سمیت، عمار، نعمان، فہد اور فہیم تو کنفرم ہیں!  محمد علی مکی اور  م م مغل صاحب سے ابھی رابطہ کرنا ہے وہ اس تحریر کو پڑھیں تو اسے دعوت ہی سمجھیں۱ اور کون سا بلاگر ہے کراچی سے جو شرکت کرنا چاہتا ہے؟  اور دیگر بلاگر جو شرکت کرنا چاہتے ہیں! ٹی اے ڈی اے اپنا ہو گا!!!

اپ ڈیٹ! اس بلاگ پر نظر رکھے نیز یہاں پر اپنی رجسٹریشن کروا لیں! اگر آپ شرکت کرنا چاہتے ہیں۔

4/09/2009

فرض کرو کہ ۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: اوریا مقبول جان

(ویسے اس تحریر کا اختتام بھی فرض کرو پر ہی ہوا ہے)

4/05/2009

طالبانی سزا، بربریت اور اسلام!

سوات والی ویڈیو اصلی ہے یا نقلی؟ لڑکی پڑوس کے لڑکے کو گھر کی بجلی ٹھیک کروانے لائی یا اُس کے سسر سے تعلقات تھے یا وہ کسی غیر محرم کے ساتھ گھر سے باہر گئی؟ اُس کی عمر سترہ سال ہے یا چودہ سال؟ اس کے علاوہ طالبان نے سوات میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں دیگر پچس مردوں اور ایک دوسری عورت کو بھی مختلف جرائم (جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں) میں کوڑے مارے۔ اس بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا جاننا ہے کہ آپ کی رائے کیا ہے اگر یہ سزا آج کسی بھی شخض کو دی جائے اگر وہ مجرم ثابت ہو جائے اور ایسا قانونی طور پر اختیار رکھنے والے باڈی کرے تو کیا تب بھی یہ سزا انسانیت سوز، انسانیت کی تذلیل! ظلم! اور بربریت کے ذمرے میں گنی جائیں گی؟
وجہ کچھ بھی ہو! بیان کر دیں!
اگر ہاں تو کیوں؟
اگر نہیں تو کیوں؟
اور شرعی سزائیں کیا ہیں؟ قرآن و احادیث والی سزائیں اب قابل عمل کیوں نہیں؟ کیا اجتہاد قرآن میں بیان کردہ سزاؤں کو بدلے کا اختیار عطا کرتا ہے اگر نہیں تو شور کس بات کا ہے؟
یا آپ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں الجھن کا شکار نہیں مگر پریشان ہوں!
آپس کی بات ہے قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی شرعی سزاؤں کا معطل ہونا ہے! میں نے پڑھا ہے! ایسے ہی کہہ دیا!

پارٹی سرکار نہیں ہوتی غیر جابندار!

حکومت و ریاست! سیاست کا طالب علم ان دونوں کے فرق کو بہت بہتر طور پر بیان کر سکتا ہے! بڑے بڑے مفکر کی باتوں کی روشنی سے ان کے بارے میں آگاہ کر سکتا ہے! جس کے بارے میں ہم یہ ہی جانتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے مختلف ہیں اور ریاست کو حکومت پر فوقیت حاصل ہے، یہ ہم جانتے ہیں مگر حکومت میں شامل ہمارے حاکم نہ معلوم کیا سمجھتے ہیں؟ ویسے وہ جو سمجھتے ہیں عوام کو معلوم ہے مگر عوام سمجھ سمجھ کے نہ سمجھنے کی عادی ہے۔
ہم جمہوریت کے دلدادہ ہیں زبانی کلامی ہی سہی، حکومت بنانے والے عوام کے  ووٹوں سے آتے ہیں اس بات سے قطع نظر نہ تو ووٹ ڈالنے والوں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے ہمارا ووٹ کوئی تبدیلی لائے گا اور نہ خود آنے والے اپنی کامیابی کو عوامی ووٹ کے مرہون منت جانتے ہیں۔ بہرحال حکومت میں آنے والے خود کو ریاست کا خادم نہیں مالک سمجھتے ہیں اور انتخاب کے نتیجہ میں حکومت جیتی ہوئی پارٹی بناتی ہے، جیتے ہوئے افراد نہیں! پارٹی جیتی ہے، حکومت بناتی ہے حکومت کرتی ہے! پارٹیوں کو شخضیات چلاتی ہیں، جودعوٰی نظریات کا کرتی ہیں!
پارٹی کی حکومت میں نوازہ پارٹی والوں کو جاتا ہے، عوامی حکومت ہو تو عوام کو نوازے! روشنیوں کے شہر کراچی میں ہم نے دیکھا کہ آپ کو کوئی مسئلہ ہو تو اپنی درخواست جو آپ جسے بھی لکھے! جس میں بیان کردہ مسئلہ چاہئے میاں بیوی کی letter لڑائی ہو! علاقے میں پانی کی قلت ہو یا کوئی اور معاملہ ضروری یہ ہے کہ آپ کی درخواست کے اوپری دونوں کونوں میں ایک طرف “جئے متحدہ“ اور دوسری طرف “جئے الطاف“ لکھا ہو۔ ورنہ درخواست سیکروٹنی کے وقت ہی درخواست کھڈے لائن لگ جاتی ہے۔ ہمیں خود درخواست وصول کنندہ نے یہ الفاظ “جلی“ حروف میں لکھنے کو کہا تھا!
پچھلے دنوں ایک نوکری کی درخواست ہماری نظروں سے گزری! درخواست گزار نے پوسٹ کے لئے ایک صوبائی وزیر کو مخاطب کیا تھا! کہ اُس نے فلاح فلاح نوکری کے لئے اپلائی کیا ہے اُسے وہ نوکری دلا دی جائے وجہ یہ کہ وہ پارٹی کی بہت مخلص کارکن ہے فلاں فلاں موقعے پر بہت قربانیاں دیں ہیں! لہذا اُس سے ذیادہ کوئی اُس نوکری کا حق دار ہی نہیں ہے! اسی طرح ایک منتخب ایم این اے کی جانب سے ایک سفارش نامہ اُن کی پارٹی عہدے والے لیٹرپیڈ پر دیکھا جس ایم این اے صاحب نے فریادی کو نوکری کا اچھا انتخاب اُس کی پارٹی سے وفاداری گردانا تھا! جناب کی سب سے اہم قابلیت یہ بتلائی کہ بی بی شہادت نے ان میں ایک ایسا جذبہ بھر دیا تھا کہ جناب نے میری نہایت عمدہ انتخابی مہم چلائی جس سے میرے حلقے کی سیٹ پارٹی کو حاصل ہوئی!! وزیراعظم صاحب کی ہمشیرہ کا ایک سفارشی لیٹر پیڈ تو ویسے بھی منظر عام پر آیا تھا پچھلے دونوں!
zardari چند ایک دفاتر میں بھی بہت عجیب صورت حال ہے افسران کے کمرے میں قائداعظم کی تصویر ہو یا نہ ہو بھٹو و بی بی کی تصویر ضرور ہو گی! سرکاری دفاتر میں ایسا نہیں ہونا چاہئے مگر ہو رہا ہے! سرکاری ملازمین کا کسی بھی پارٹی سے تعلق ہو مگر دوران نوکری اُن کے موبائل پر کال آنے پر یا تو بی بی کی آواز میں “بھٹوزندہ ہے“ کے نعروں والی بیل بجتی ہے یا کسی پارٹی سونگ کی! ریاست پر حکومت پارٹی کرے تو ایسا ہی ہوتا ہے شاید!
تبدلی کی امید کیسے کی جائے جب گورنر جیسا غیر جانبدار عہدے پر فائز صوبے میں اپنی پارٹی کے جھنڈے گاڑنے کی بات گے اور جب خاص طور ہر صدر کی سیٹ پر فائز شخص جو ریاست کا سربراہ ہو آئینی طور پر (جس کے لئے لازم ہو کہ وہ غیر جانبدار ہو) وہ حکمران پارٹی کا شریک چیئرمین ہو! اور پارلیمنٹ سے خطاب میں ایسی تقریر کریں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو وہ خود کو پارٹی کا سربراہ پہلے اور ملک کا صدر بعد میں مانتا ہے تو کیسے ممکن ہے تبدیلی آئے گی!

4/01/2009

رحمان ملک نے کہا! مگر کہا نہیں!!

آپس کی بات ہے یار لوگ بھی کامل کرتے ہیں! اب ان سے اللہ بچائے! اب رحمان ملک  نے بات کسی اور سیاق وسباق میں کی تھی، مگر یار لوگوں نے اس ایک حصہ کی اس طرح سے تبدیلی کہ کہ یو لگتا ہے جناب باقاعدہ نعرہ لگا رہے ہوں! زر-داری کے خلاف!

 

ایک حقیقت!

آپ دنیا کی اچھی سے اچھی،  درست و سچی بات کر لیں مگر آپ کو اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ ایسے کئی افراد ہوں گے جو آپ کو غلط کہے گے! دوسری طرف اگر آپ دنیا کی نہایت بیہودہ و غلط و جھوٹی بات سُنے تو اُس لمحے ہر گز حیراں نہ ہو جب اُس کے حق میں کوئی بات کرے! کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ یہاں اچھی بات کے مخالف و غلیظ خیال کے ہامی بھی ہیں!