Pages

9/30/2005

سن لو

لو جی میں پاس ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ جب فون پر یہ بات میں نے گھر پر بتائی تو بہن (چھوٹی) نے کہا “مجھے پتا تھا ہمارے ملک کا تعلیمی نظام خراب ہے مگر اتنا اس کا اندازہ نہیں تھا“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ وکالت اب دور نہیں۔۔۔۔۔۔ نوٹ؛ “نصیحت کرنے والے احباب جان لیں ہمارے پاس دوسرا کان اکثر بد ہضمی دور کرنے کے لئے ہے نصحیتیں“

9/28/2005

ماضی میں تبدیلی یا ترمیم

کیا تاریخ کے اوراق میں تبدیلی کیا ترمیم ممکن ہے؟ کیا ماضی کو بدلا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب نہایت سیدھا ہے نہیں ایسا ممکن نہیں ۔۔۔۔۔تو کیا اسے چھپانا ممکن ہے؟ اس سے پردہ پوشی ہوسکتی ہے؟ کیا اس سسلے میں کسی کو گمراہ کیا جاسکتا ہے؟ شائد انفرادی سطح پر تو ایسا ممکن ہو مگر اجتماعی سطح پر ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔بہت مشکل ہے۔۔۔ پھر بھی دیکھنے میں آیا ہے ایک ہی دور کے متعلق نیز کسی دور کے کسی حکمران کے متعلق مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہیں،ایک شخض ایک قوم کا ہیرو ہے تو دوسری کے لئے ولن ۔۔۔ ایک کا مسیحا تو دوسری کا قاتل کہلاتا ہے۔۔۔۔۔ایک کے لئے کچھ اور دوسری کا واسطے کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلا صلاح الدین ایوبی اہل مسلم کے لئے ہیرو ہے مگر اہل لوئیہ کے نزدیک جنگجو۔۔۔جس نے انہیں شکست دی ۔۔۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کے دوسرے سپہ سالار کا بھی یہ ہی عالم ہے۔۔۔ طارق بن ذیاد جس نے اسپین میں مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی اس کے کشی جلانے کے واقعہ کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔کشتیاں جلانے والا محاورہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے (مجھے تو یہ ہی پتا ہے)۔۔۔۔ اس فرد کو اہل مسلم اعلی حاکم اور مجاہد مانتے ہیں، مگر۔۔۔ اسپین کے ایک عجائب گھر کے باہر اس کے مجسمے کے نیچے یہ الفاط درج ہیں “ ایک جشی قزاق جس نے ٧١٣ء میں اسپین پر حملہ کرکے ایک جابرانہ حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے کافی عرصہ تک ایل اسپین پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے“ (میں نے یہ پی ٹی وی کے نامہ نگار سرور منیر راؤ کے کالم میں پڑھا تھا) محمد بن قاسم جو ٧١٢ ء میں سندھ فتح کیا۔۔۔ ہندو تاریخ دان اسے بھی بحری قزاق کرار دیتے ہیں۔۔۔ حجاج بن یوسف (کوفہ کا گورنر) واقعی میں ایک سخت اور جابر حاکم بیان کیا جاتا ہے مگر ۔۔۔۔۔ غیر مسلم تاریخ دان اسے جنسی بے واہ روی کا شکار قرار دیتے ہیں مگر کسی مسلم تاریخ دان نے ایسا نہیں کہا نہ مانا۔۔۔ بلکہ قران پاک کا ایک اعلی قاری مانا جاتا ہے۔۔۔ مجھے کنفرم تو نہیں مگر ایک رائے یہ بھی ہے کہ قرآن پاک پر اعراب اس ہی کی رائے پر لگائے گئے تھے۔۔۔۔ اگر “بت شکن“ کہا جائے تو محمود غزنوی کاخیال آتا ہے۔۔ بھارت میں چھٹی جماعت کی کتاب High road of India میں اس کے کردار کو مکرو دکھایا گیا ہے۔۔۔۔ اکبر جس نے اپنے دور حکمرانی میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہندؤوں میں شادی کی ۔۔۔۔۔الگ مذہب کی بنیاد ڈالی ۔۔۔ اس بناء پر اسے “مغل اعظم“ کا لقب ملا۔۔۔ اعلی انصاف کی وجہ سے نہیں مسلم تاریخ دانوں کی رائے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سے ٥٨ برس پہلے کہ بات ہو تو بھی تمام تاریخ دان کسی ایک بات پر متفق نہیں۔۔۔۔۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی چار لڑائیوں کی آٹھ کہانیاں ہیں ہر جنگ سے متعلق دونوں ملکوں کی اپنی اپنی رائے ہے۔۔۔۔اپنی اپنی کہانیاں۔۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک خود دو مختلف گروہ تاریخ کو اپنے انداز میں لکھ کو بیان کر رہے ہیں۔۔۔ آج کا میڈیا بھی جانبدار آج کاتاریخ دان بھی۔۔۔ اب آپ بنائے کون سی تاریخ اہل مسلم سچ مانے۔۔۔۔۔ وہ جو مسلم تاریخ دانوں نے لکھی ۔۔۔۔ اور غیر مسلم نے اسے غلط ثابت نہیں کیا (یا کر سکے)۔۔۔ اور مان جائے کہ وہ ایک برا ماضی رکھتے ہیں۔۔۔۔ اور اپنی نئی نسل کو بھی یہ ہی بتائے؟؟؟ یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

9/25/2005

پکوڑے

رمضان کی آمد آمد تھی مٹر اور آلو اور آلو مٹر کھا کھا کر افسر کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ عام دنعں میں آلوؤں کے چپس بنا بنا کر چائے کے ساتھ پیش کر دیئے جاتے تو کس حد تک تنوع کا احساس ہوتا لیکن رمضان میں تو دن میں کھانا پینا بھی موقوف ہوتا ہے۔ سو پی ایم سی نے میس کے ارکان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا کہ رمضان کے لئے مینو تیار کیا جا سکے۔ہم کافی پریشان ہوئے کہ میس میں آلو مٹر کے ڈبوں کے بعد صرف بہسب موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور صرف بیسن کے لئے ہوتے ہوئے کیا مینو تیار ہو سکے گا۔
اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ارکان کی تعداد اس دن اتفاق سے نو تک جا پہنچی تھی، تفصیل سے اجلاس کی اہمیت بتائی گئی اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی تجاویز اجلاس میں شرح صدر سے پیش کریں۔ ہم نے اجازت صدر یہ بات بھی گوش گزار کر دی کہ میس میں آلو اور مٹر کے ڈبع کے بعد صرف بیسن موجود ہے، تجاویز “میسر شدہ وسائل“ کی حدود میں ہوں۔
“بیسن سے کیا کچھ بنایا جاسکتا ہے“ ؟ وضاحت چاہی گئی۔
“پکوڑے“
“پکوڑے تو افطاری ہی میں ذیادہ لطف دیں گے اِس لیے انھیں افطاری ہی میں رکھا جائے“۔
“بجا“۔
“پہلے سات دنوں کا صرف افطارری کا مینو تیار کرلیا جائے“۔
“جیسا آپ چاہیں“۔
تو میس سیکرٹری آپ ہمیں افطاری میں کیا کچھ دے سکتے ہیں؟“۔
“جی پکوڑے“۔
“چلیں ایک دن تو پکوڑے ٹھیک ہیں۔ باقی دن ———؟“۔
“یہی سوچنے کے لئے اجلاس بلایا گیا ہے۔آپ تجاویز دیں“۔
“میس میں کیا کچھ موجود ہے؟“۔
“آلو اور مٹر“۔
“انہیں مارو گولی“۔ایک صاحب بھنائے۔
“ٹھیک ہے سر“۔
“اور کیا ہے؟“۔
“بیسن“۔
“بیسن سے کیا کچھ بن سکتا ہے؟“۔
“جی میرے علم کی حد تک تو پکوڑے بنائے جا سکتے ہیں“۔
“چلیں ایک دن تو طے ہو گیا لکھے اتوار کو پکوڑے“۔ایک صاحب نے اختلاف کیا“پکوڑے جمعرات کو کھائے جائیں اور معمولی بحث کے بعد یہ اختیار میص سیکر ٹری کو سونپ دیا گیا کہ جس دن وہ چاہیں پکوڑے بنالیا کریں۔چنانچہ ہم نے لکھا؛
مینو برائے افطار
پکوڑے برائے سوموار
“اچھا یہاں بازار میں کیا کچھ ملتا ہے؟“۔
“اول تو عصر کے بعد سے لوگ دکانیں بند کر کے اپنے اپنے گھر کو سدھار تے ہیں۔دوسرے ان کے ہاں کھانے کی اشیاء نہیں بکتیں۔ صرف ایک چھوٹی سی دوکان کھلی رہتی ہے۔ دیر سے آنے والے ڈرائیوروں کے لئے“۔
“ کیا کچھ ہوتا ہے اس کے پاس افطار کے لئے؟“۔
“جی پکوڑے“۔
وہ تو ہم میس میں بنا لیں گے“۔
“جی جی با لکل“۔
“کس دن رکھے گئے ہیں پکوڑے؟“۔
“جی سوموار کو“۔
“ویری ویل! میس میں اور کچھ نہیں مٹر آلو کے علاوہ“۔
“جی بیسن ہے نا“۔
“بیسن سے کیا کیا چیزیں بنتی ہیں“۔
“جی میں نے عرض کیا تھا نا ———- پکوڑے“۔
خاموشی کا ایک وقفہ۔
ویٹر کو آواز دی گئی۔ خانساماں کو طلب کیا گیا۔
یہ خانساماں مقامی باشندوں میں سے عارضی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ اصل خانساماں چھٹی پر تھا۔ وہ ہوتا تو شائد بیسن سے بہے کچھ بنا سکتا۔لیکن عارضی خانساماں اور پی ایم سی کے درمیان مذاکرات بری طرح ناکام ہو گئے۔سنیے ذرا؛
پی ایم سی اور خانساماں کے درمیان مذاکرات ، میس ممبران گوش بر آواز،
“تم افطار کے لئے کیا کیا کچھ بنا سکتے ہو؟“۔
“سب کچھ بنا سکتا ہوں سر جی“۔
“مثلا؟“۔
“سر جی ، ہر چیز بنا سکتا ہوں لیکن یہاں کوئی چیز ملتی ہی نہیں۔میس حوالدار پنڈی سے صرف ڈھائی من بیسن لایا ہے“۔
“بیسن سے تم کیا کیا چیزیں بنا سکتے ہو“۔
“سر جی پکوڑے“۔
“شٹ اپ“۔
اور پی ایم سی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔
تحریر=کیپٹن اشفاق حسین اقتباس =جنٹل مین الحمدللہ

9/24/2005

مدد درکار ہے۔۔۔۔۔بلاگ کے سلسلے میں کوئی کر سکے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپیرا میں اودوویب پیڈ کام نہیں کر رہا، اگر بلاگ پر موجود کی بورڈ سے کلک کرو تو لکھا جاتا ہے مگر دوسری طرح نہیں۔۔۔۔ دوسرا یہ کی اشتہاری تبصروں سے بچنے کے لئے میں تبصرہ سسٹم میں کیسے تبدیلی کرو(ویسے تو ابھی تک کوئی اشتہاری تبصرہ بلاگ پر نہیں ہوا) وہ آن کرنا تو آتا ہے مگر تبصرہ فارم میں (بلاگ میں ہی) شامل کرنے سے قاصر رہا ہو۔۔۔حارث اور انکل اجمل کے تبصرہ سسٹم سے (سورس دیکھ کر) کوڈ کاپی کیا(صرف الفاظ دوبارہ لکھے والا) مگر وہ ٹھیک طرح کام نہیں کررہا کیا کسی کے پاس حل ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ انکل اجمل کا کیا گیا تبصرہ ہر مرتبہ ایک آدھ دن گزر جانے کے بعد خود باخود نامعلوم کیوں! (میں نہیں کرتا)غائب ہوجاتا ہے۔۔۔اس کی اجہ اور حل کسے کو معلوم ہے۔۔۔یا انکل آپ خود مٹا دیتے ہیں؟؟؟؟؟ ایک بات اور یہ کہ کیا اب بھی تبصرہ فارم میں ریاضی کے عجیب و غریب فارمولے آتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ بتا دے شکر گزار ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ××××××× کیا آپ کے لئے یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی سالگرہ کے دن سے مجھے آگا ہ کر دے؟؟؟اگر ہاں تو یہاں پر بتا دے۔۔۔

9/22/2005

انگوٹھا

یوں تو انسانی جسم کے تمام اعضاء بہت اہم ہیں کئی ایسے جو خود انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ضروری نھی۔۔۔۔۔۔ان میں انگوٹھے کی ایک اپنی الگ سیاسی، معاشی(؟)،معاشرتی، اخلاقی اور ذاتی حیثیت ہے۔اختلاف؟؟ کرلو۔۔مگر ہمارے پاس بھی اپنے دلائل ہیں۔

ہر بندے کےپاس کل چار انگوٹھے ہوتے ہیں(دو پاؤں کے اور دو ہاتھوں کے) ،ان کے بڑے فائدے ہیں۔۔۔پاؤں کا انگوٹھا اگر نہ ہو تو ہوائی چپل(اس کا تعلق جزیرہ ہوائی سے نہیں) نہیں پہنی جا سکتی۔۔۔علم نجوم نے بھی پاؤں کے انگوٹھے کو اہم گردانا ہے، بتاتے ہیں کہ اس کے پڑوس کی انگلی اگر بڑی ہوتو آپ کا اپنی(یا اپنے) شریک حیات پر رعب ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے ہمارے ایک دوست نے گھر والوں کے سامنے شرط رکھی کہ“میری کسی پر نہیں(حکمرانی) چلتی سب مجھ پر (حکم) چلاتے ہیں لہذا بہتر ہے میری بیوی وہ بنائی جائے جس کے پاؤں کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی چھوٹی ہو کہ کہیں تو میری بھی(حکمرانی) چلے“ ، تب اُن کی امی نے بیٹے کی خواہش پر ایک رشتہ دیکھتے وقت پاؤں دیکھنے کے لئے لڑکی سے جوتا اتارنے کے لئے کہا تو بولی“آنٹی آپ امی(چبا کر) تو بنے پھر موقع بے موقع جوتی اتارا کرو گی“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور اور کھانے کے اور ہوتے ہیں اسی طرح انسانی انگوٹھا دیکھانے میں اور ہوتا ہے اور لگانے میں اور۔۔۔اگر یہ مٹھی کے اوپر چست حالت میں ہوتا “زبردست“،“شاباش“ کے معنی میں آتا ہے مگر اگر یہ جھول رہا ہوتو چڑانے کے معنی میں اس صورت میں اسے ٹھینگا کہتے ہیں لیکن اگر اس کا رخ زمین کی طرف ہو تو اس کا مقصد نیچا دیکھانا ہوتا ہے۔۔۔(یہ اشارے اگر کوئی دوسرا آپ کے لئے بھی کر سکتا ہے اور بوقت ضرورت آپ بھی دوسروں کے خلاف)۔

نا خواندہ یا ان پڑھ افراد کا انگوٹھا پڑھا لکھا ہوتا ہے تب ہی تو مختلف قانونی دستاویزات پر دستخط کی جگہ جا بجا استعمال ہوتا ہے ان کی جانب سے۔۔۔۔۔یار لوگ ان کو انگوٹھا چھاپ کہتے ہیں ویسے اکثر موقعہ پر خواندہ خضرات بھی انگوٹھا چھاپ بن جاتے ہیں!!کبھی ووٹ ڈالنے جائے یا شناختی کارڈ بنوانے!!

آپ کے انگوٹھے کی پوزیشن میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔چلے تبصرہ میں بتا دے!!!!!!

9/20/2005

I'm.....

I'm an ordinary man Who desires nothing more Than just an ordinary chance To live exactly as he likes And do precisely what he wants. An average man am I, Of no eccentric whim, Who likes to live his life, free of strife, Doing whatever he thinks is best for him. Oh, Just an ordinary man. I'm a quiet living man, Who prefers to spend the evenings In the silence of his room; Who likes an atmosphere as restful As an undiscovered tomb. A pensive man am I, Of philosophic joys; Who likes to meditate, contemplate, Free from humanity's mad inhuman noise. A quiet living man. Professor Higgins

9/18/2005

مکالمے

تم “جیو“ ٹی وی دیکھتے ہو؟ ہاں! کیوں؟ دیکھو! وہ اپنی ہر نیوز سیگمنٹ کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے ان کے نام یوں رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ “جیو نیوز“، “جیو دنیا“، “جیو ٹریول“، “جیو انٹرٹینمنٹ“، “جیو کھیل“، “جیو کرکٹ“، “جیو ہاکی“ وغیرہ تو! ذرا سوچو! اگر وہ جرائم سے متعلق خبروں کے لئے ایک سیگمنٹ بنائے تو اس کا کیا نام رکھے گے؟ بھلا !کیا؟ “جیو جرائم“
××××××××××××
تم نے وہ اپنے صدر کا بیان سنا! ارے کس بیان کی بات کر رہے ہو! وہ تو ہر وقت ہی بیان دیتے رہتے ہیں؟ یار! وہ ویزہ اور دولت سے متعلق مظلوم خواتین پر جوالزام دھرا ہے ہاں یار نہایت بچگانہ بیان ہے شرم نہ آئی اسے۔۔۔۔۔ ہاں!ہاں!مگر کچھ معلوم ہے کیوں دیا ہے؟ کیوں دیا ہے؟ بھائی “پروفیشنل جیلسی“ہے کیا بکواس ہے یہ بیان اور پروفیشنل جیلسی؟ دماغ تو ٹھیک ہے تمھارا! بھائی! یہ ان جی اوز اور صدر دونوں مغرب کے کہنے پر ملک میں “روشن خیالی“ عام کر رہے ہیں نا! ہاں تو پھر! اب! سمجھ جاؤ ایک فریق دوسرے کی کامیابی پر جیلس نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا!

9/16/2005

اسراءیل منظور یا نا منظور؟؟؟؟

پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات پر “پی آر کمار“ کی کتاب“پردہ کے دوسری طرف“ پڑھی۔۔۔ پڑھ کر احساس ہوا پاک اسرائیل تعلقات کے ہامی شائد یہ ہی کتاب پڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔۔۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کتاب کے کئی واقعات حرف بہ حرف درست ہیں۔۔۔ مگر کمار نے اسے اپنے انداز میں دیکھا ہے۔۔۔ اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے سے متعلق تمام دلائل کو اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔۔۔میں چاہو گا کہ آپ (اگر وقت ہو تو) اسے ضرور پڑھے۔۔۔۔ مگر ساتھ ہی میں یہاں ان دلائل اور تاریخی واقعات کو بیان کر دو جو اسرائیل مخالف پیش کرتے ہیں (غلط وہ بھی نہیں) عالمی صیہونی کانگریس کے صدر وائزمین نے ١٩١٤ء میں فلسطین کے بارے میں کہا؛“ایک ملک جس کی کوئی قوم نہیں،ایسی قوم جس کا کوئی ملک نہیں“ ١٩١٧ میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ الفور نے جب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا (یہ اعلان الفور کے نام سے منسوب ہے) تو قائد اعظم نے اس کی مخالفت سخت الفاظ میں کی تھی ، ان کی رائے میں اسرائیل کا قیام عالمی سازش ہے،یہ ریاست دراصل عربوں کے سینے میں ایک خنجر ہے جس سے ہمیشہ عربوں کا سینہ زخمی رہےگا۔۔۔ کہتے ہیں عالمی صیہونی تحریک نے ١٩١٩ میں ورسائی امن کانفرنس مے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا اس کی رو سےاسرائیم مشتمل ہو گا مصر دریائے نیل تک، پورا شام، پورا لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ترکی کا ضنوی حصہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا علاقہ۔ ١٩٢٢ سے ١٩١٤٧ تک یہودی پوری دنیا سے آ کر فلسطین میں اس ریاست کے قیام کی غرض سے جمع ہوتے رہے،وہ مکانات کرائے پر لیتے اور اگر کوئی کرائے پر نہ دیتا تو منہ مانگی قیمت یا اصل سے کئی ذیادہ کئی ذیادہ قیمت لگا کر مکان خرید لیتے۔۔۔ ١٩٣٨ میں ڈیوڈ بن گوریاں نے یہودی لیڈروں کے سامنے کہا؛“ ہم باہر کی دنیا میں الفاظ کی جنگ کے ذریعے عربوں کی مخالفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ظالم اور جارح ہیں عرب صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں“۔ جرمنی کا مشہور رہنما ہٹلر کی ان کے بارے میں رائے تھی کہ دنیا میں ہر بیماری کے جراثیم ہونے ہیں اور برائی دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے۔اس بیماری کے جراثیم یہودی ہیں وہ سمجتا تھا کہ دینا کی لسی برائی کی جڑ تک پہنچا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز کسی یہودی دماغ سے ہوا ہے(اختلاف آپ کا اور میرا حق ہے) ہٹلر کے ہولوکاسٹ کے بعد جولائی ١٩٣٩ میں فرانس میں ٣٢ ممالک کے نمائیدے اس بات پر غور کرنے جمع ہوئے کہ کون کتنے یہودیوں کو پناہ دے گا یا دے سکتا ہے تب فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، امریکہ، یوروگوئے اور ونیزویلا نے کسی بھی یہودی کو پناہ دینے سے انکار کردیا۔۔۔یہ بیس ہراز یہودی فلسطین میں لا کر بسائے گئے۔۔۔ہٹلر سے ان بیس ہزار یہودیوں کو نجات دلانے والے سویڈش صلیب احمر کے سربراہ کاونٹ فوک برناڈاٹ کو انتہا پسند صیہونی تنظیم “سٹرن کینگ“ کے سربراہ اساق شیمر کے حکم پر اہل فلسطین کے حق میں اہم بیان دینے کے جرم میں قتل کردیا جس میں اس نے فلسطینوں کے حقوق اور ملکیت جائیداد کے متعلق کہا تھا۔۔۔ نومبر ١٩٤٧ میں امریکی دباؤ کے تحت اقوام متحدہ نے فلسطین کو “عارضی“ طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی تو پاکستان سمیت تمام عرب ممالک نے اس کی مخالفت کی۔۔۔۔اس سے پہلے ٢٥ اکتوبر کو رائٹر کو انٹرویوں دیتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا؛“ فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمائندے نے اقوام متحدہ میں کردی ہے۔مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کردیا جائے گاورنہ ایک خوفناک کشمکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہو گا بلکہ پوری اسلامی دنیا کے خلاف بغاوت کرے گی کیوں کہ ایسے فیصلے(اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے“۔ اسرائیل کے قیام کے بعد یہود نے اس علاقے پر اپنا تسلط مضبوط کرنے کے لئے ہر غیر اخلاقی اقدام روا رکھا، زور،زبردستی۔۔۔حد دیکھے کہ اپنی عدالتیں قائم کی جن میں جائداد سے متعلق دعوہ کیا جاتا کہ یہ جائیداد آج سے قریب بارہ سو سال پہلے میرے اس جدامجد کے پاس تھی اس بنیاد پر مقدمہ جیت کر مکان اپنا اور مسلمان باہر۔۔۔۔ ١٩٦٧ء میں عربوں کئ ٤٥٠ مربع کلومیٹر کےعلاقے پرقابص ہو گئے۔۔۔۔اقوام متحدہ کو جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں دو دن کی تاخیر اس بناء پر ہوئی کہ امریکی سفیر آرتھر گولڈ برگ نے مخالفت کی تھی بلا کس بات کی؟۔۔۔بھائی سادہ کہ اسرائیل کو جارح نہ قرار دو دوسرا یہ کہ اسرائیل کی فوجیں ٤ جون ١٩٦٧ کی سرحد پر واپس جانا پسند نہیں کرتی لہذا انہیں ایسا کرنے کا نہ کہا جائے۔۔۔ میری رائے؛ قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اور پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں نے اوپن فورم میں ہمیشہ عربوں کا ساتھ دیا ہے اس معاملہ میں۔۔۔۔اندرون خانہ اور چند ایک مواقع پر غیر سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے نمائیدگان اور سفیروں کے مابین ملاقات ہوئی جن میں کئی معاملات نمٹائے گئے مگر اس کے باوجود پاکستان نے کبھی اسرائیل کی حمایت نہ کی۔۔۔۔۔۔نہ ان کے کسی اقدام کو درست کہا۔۔سرکاری سطح پر اسرائیل سے تعلقات سے اجتناب کی وجہ؟ اس سے کسی ملک کو تسلیم کرنا مراد لیا جاتا ہے،آپ مانتے ہیں کہ وہ ایک ریاست ہے۔۔۔ابھی اگر قومی اسمبلی میں وزیراعظم صاحب یہ نہ کہتے کہ اس ملاقات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ اخذ کر لا جاتا کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔۔۔تشکیلی نظریہ۔۔۔۔اسرائیل پاکستان سے تعلقات کا اس لئے خواہش مند ہے کہ وہ پاکستان کے ہاتھ سے عرب کارڈ لینا چاہتا ہے جسے پاکستان ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کرتا آ رہا ہے۔۔۔پاکستان نے اگر اسے مان لیا تو اسلامی ممالک کی طرف سے اسے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ او آئی سی کے قیام میں پاکستان کے ہاتھ اور اب ایٹمی طاقت ہونے کی بناء پر سعودی عرب کے بعد پاکستان کو اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔جبکہ پاکستان کے لئے اس کی طرف سے دو لالچ دیئے جا رہے ہیں (جس کا اسرائیلی میڈیا اس وقت ذکر کر رہا ہے) ایک ایٹمی معاملے میں مدد دوسرا معاشی معاملے میں سپورٹ۔۔۔۔۔کیا ایسا ممکن ہے؟ اسرائیلی میڈیا نے ہی پاکستان کے ایٹم بم کو سب سے پہلے “اسلامی بم“ قرار دیا اور وہاں سے مغرب نے یہ اصلاح اٹھا لی! چند ایک بار وہ کہوٹہ لیب پر حملے کا پروگرام بنا چکے ہیں اب اس پر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی کرے؟؟؟؟؟؟معاشی معاملے میں مدد کرے گے لیکن اپنی ! یہ منڈی تو اب بھی اُن کے پاس ہے۔۔۔۔ جو دعوی ان کا فلسطین پر ہے(یہ ہمارے آباؤ اجداد کی زمین ہے ) اس پر اقبال کا ایک شعر ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق ہپسانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا

9/14/2005

ڈوریTag

مجھے جہانزيب اور قدیر رانا نے ٹیگ کیا۔۔۔۔یوں میں اس ڈوری سے بند گیا ہو۔۔۔ پانچ سال پہلے پانچ سال پہلے میں اپنے گھر میں تھا۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔مذاق!۔۔۔انٹر کے امتحان دے کر فارغ تھا۔۔۔نتیجہ کا انتظار تھا، یعنی انٹر(انٹرمیڈیٹ نہ کہ گھسنا) سے ایگزیسٹ (برخاستگی) ہی سمجھے۔ساتھ ہی یہ سوچ رہا تھا کہ آگے سائنس ہی کو ذریعہ تعلیم بناؤ یا آرٹس کی طرف کود جاؤں، دراصل میڑک کے ابتدائی دور ہی میں نے وکالت کی فیلڈ میں کودنے کا آرادہ کر لیا تھا والد صاحب کی خواہش پر، انٹر تک سائنس پڑھنے کی دو وجہ تھی ایک فوج میں جانے کا شوق دوسرا کسی نے کہا تھا آرٹس تو نالائق تو پڑھتے ہیں کم ازکم انٹر تو سائنس میں کرو۔۔۔سو کرلیا۔۔۔رزلٹ کے بعد آرٹس کی طرف رجوع کیا۔۔۔اور سچی بات ہے کہ اس وقت ہی مطالعہ کی عادت پڑی خاص طور پر سیاسیات اور تاریخ اسلام نے سوچ کو الگ ہی رخ کی طرف موڑ دیا یوں رٹے کے طریقہ کار کو چھوڑ کر سمجھ بوجھ اور پرکھنے کی عادت پڑی ساتھ ہی باتوں اور واقعات کو پھیلا کر دیکھنے کی عادت پڑی۔۔۔۔۔۔۔شائد اس کی ایک وجہ میرے استاد تھے ؟ہاں! وہ ہی تھے ایک سال پہلے ایک سال پہلے میں قانونی کنوارہ پن (ارے بھائی وکالت ،ایل ایل بی) کے دوسرے سال کے امتحان کے رزلٹ کا انتظار تھا اور ساتھ ہی پنجاب کے ٹور پر تھا۔۔۔چھ سال بعد گیا تھا۔۔۔بہت مزا آیا۔۔تمام کزن اور رشتے داروں سے مل کر۔۔۔ واپس آ دوبارہ پڑھائی شروع ہو گئی۔۔۔ہاں! ایک دلچسپ واقع! سال پہلے کا۔ہوا یہ کہ کالج(ایس ایم لاء) میں میرے دوست کا ایک کزن “جیو“ میں کام کرتا ہے اس کو کہہ کر ہم نے جیو کے پروگرام میں شرکت کی کوئی سبیل کرنے کو کہا۔۔اور اسے“اُلجھن سلُجھن“ کے پاس مل گئے ہم گئے پروگرام کی شوٹنگ میں حصہ لیا (ایک دن میں دو پروگرام ریکارڈ ہوئے) اور واپس آگئے۔۔۔الگلی مرتبہ پھر پاس کا بندوبست ہو گیا۔۔دوست نے کہا بھائی ساتھ جا رہے ہو تو وہاں کچھ نا کچھ لوگوں کے مسائل کے متعلق رائے دینا ہم نے کہا ٹھیک ہے یہ کیا مسئلہ ہے۔۔۔ابتدائی گفتگو کے بعد(کیمرہ آف کر کے) جب حاضرین سے پوچھا گیا کہ کون کون مشورہ دے گا تو ہم نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا اب جو ہم نے(سوچ رکھا تھا) بولنا تھا وہ ایک دوسرے صاحب نے کہہ دیا اب ان کے بعد ہماری باری آئی تو ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔۔۔فورا کچھ نہ آیا تو اس بات کو ہی بدل کر کہنے کا ارادہ کیا رائے دینے کا آغار کیا تو روک دیا گیا کہ کیمرہ فوکس کرنے دیں،میں نے دوبارہ گفتگو شروع کی تو میزبان ٹھیک ہماری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی (کہا گیا تھا کیمرہ کے بجائے ان کی طرف دیکھا جائے) ۔۔میں کچھ سٹپٹا گیا نظر ہٹا کر دوسری طرف کر لی جہاں کی اس طرف ان کا شائد ایڈیٹیگ روم تھا بہر حال جو بھی تھا بھائی میری تصویر آرہی تھی۔۔رنگ کالا تھا کافی۔۔اب ادھر میں یہ بول رہا تھا ادھر میں اپنے رنگ کالا آنے کے بارے میں سوچ رہا تھا ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری آواز کچھ کانپ رہی ہے شائد گبھراہٹ سے(کیمرے کا خوف) اب جو کچھ میں نے بولنا تھا میں بھول گیا۔۔۔۔اول فول بکواس کی اور مائک سے جان چھرائی یہ سب کام کل دو منٹ سے کم وقت میں ہوا مگر مجھے دو گھنٹوں پر محیط محسوس ہوا۔۔۔۔میری اس اول فول کو سراہا گیا (تعجب ہے)۔۔سنا دیکھایا بھی گیا تھا(میرے گھر کیبل نہیں ہے)۔۔۔اس کے بعد اگلی مرتبہ جب پروگرام میں شرکت کرنے گیا تو اس کا ٹاپک کافی ذیادہ بولڈ تھا لہذا اس کے بعد کبھی اس پروگرام کی ریکاڈنگ پر نہیں گیا۔۔۔۔۔ موسیقی! گانوں کے بول مجھے پورے یاد نہیں رہتے۔۔۔بس پنچ لائین یاد رہتی ہے یا وہ لائین جو پنچ کرے۔۔۔نئے پرانے سب اچھے گانے سنتا ہوں خاص طور پر عارفانہ کلام ،عارفانہ کلام سننے کی عادت ابو کی وجہ سے پڑی۔۔۔ اسنیکس! اسنیکس میں سب ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔پکوڑے سر فہرست ہیں۔۔۔ سو ملین ڈالر! ارے !یہ سو ملین ڈالر مجھے دے گا کون؟۔۔۔۔اگر ملے تو سب سے پہلے تھپڑ مارو گا جو بھی سامنے ہوا اسے،تاکہ مجھے یقین ہو جائے کہ حقیقت ہے کہی خواب تو نہیں۔۔۔پھر آگے کا سوچوں گا۔۔۔ جہگیں جہاں میں جانے کو تیار رہتا ہوں! کمپیوٹر کے سامنے۔۔۔۔۔دوستوں کی محفل میں۔۔۔کسی مباحثے میں۔۔۔۔۔۔کسی تقریب میں بڑی خوشیاں! عمرہ کی سعادت۔۔۔۔۔اچھی کتاب کا تحفہ۔۔۔۔امتحان میں کامیابی(کسی بھی) یعنی کسی کی امید پر پورا اترنے پر ٹی وی! اس کا شوق نہیں پالا۔۔۔۔ویسے اگر کہیں کوئی سیاسی یا معاشرتی موضوع پو پروگروم لگا ہو تو پورا دیکھتاہو۔۔۔ کھلونے! ارے! میرے یہ کون سی عمر ہے ان سے کھلنے کی۔۔۔۔ کپڑے نہیں پہنوں گا! جو مجھے اچھے نہ لگے!۔۔۔اور لڑکیوں کے کپڑے۔۔۔ ٹیگ! جناب آپ اور آپ جی کہا آپ بھی۔۔۔ اس کے علاوہ زکریا انکل اجمل دانیال خاور شعیب شیپر نبیل میرا پاکستان(پاکستان کے سیاسی حلات کے بارے میں لکھا جائے تو مزا آئے) عادل منیر احمد طاہر ہی محبت کی ڈوری ہے۔۔۔۔اس لئے آپ لوگوں کو اس میں باندھا ہے۔۔۔۔جو پہلے ہی اس ڈوری کے تحت بندھ کے لکھ چکے ہیں۔۔۔انہیں خود سے آگے پا کر لائین میں پیچھے لگ گئے ہیں

9/10/2005

مہنگائی کا ریلا اور اپوزیشن کا رولا

جمعہ کو ہڑتال تھی جزوی رہی۔۔ہڑتال بھی اور ہرتال کے متعلق بیان بھی۔۔۔۔صبح ساڑھے گیارہ بجے کے بعد جزوی ہوئی اور شام تک ختم ہو گئی۔یہ ہڑتال پوری اپوزیشن کی نہ تھی،اےآرڈی والے ڈرے ڈرے رہے۔۔۔خود مجلس میں مولانا صاحب کا رد عمل پرے پرے والا تھا۔۔۔۔آج کل وہ ویسے بھی قاضی صاحب سے چند قدم پیچھے ہوتے ہیں بھائی پیچھے سے“پباں پار کھلو کے“ حکومت کو ہاتھ ہلا کے بتانا آسان ہے کہ “کچھ نظر کرم ہو یہاں بھی عنایت“ ہم منتظر کھڑے ہیں،یوں یہ قاضی کا شو تھا۔۔شو ختم ہو گیا۔۔۔اپنوں نے کہا واہ واہ کیا کامیابی ہے۔۔غیروں نے سنائی خبر الگ۔۔۔آج تو ویسے بھی جمہ تھا آدھا کاروبار بند ہوتا ہے۔۔۔شیخ صاحب نے نوید سنائی اس سے ذیادہ ناکام ہڑتال میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔قاضی میاں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔۔۔لیکن شو پھیکا بھی نہیں رہا ۔پورے ملک میں جو ہوا سو ہوا۔۔کراچی میں حالات ذرا مختلف تھے، رات کو ہونے والے دھماکے نے نازک بھی کردئیے۔۔۔۔یہاں ہڑتال کو ناکام کرنے کا ذمہ اُن کو تھا جنہوں نے اس عمل کو رواج کی حد تک فروغ دیا یعنی بلی کو دودھ کی حفاظت پر مامور کردیا گیا۔۔۔ صوبائی حکومت کی طرف سے متعلقہ ڈی ایس پی حضرات کو ان کی جانب سے متعلقہ ٹی پی او کو اس کی طرف سے ماتحت ایس ایچ او کو حکم ہوا ہڑتال ہوئی اگر کامیاب تو تمہاری خیر نہیں۔۔۔ انہوں نے اپنے علاقے کے دوکان داروں کو جا لیا کل دوکان بند نہ ہو۔۔سمجھے کہ سمجھاؤں! ، اب کون نہ سمجھے؟۔۔پھر بھی کئی ایسے نکلے جن کی سمجھ میں بات نہ آئی اور کئی ایسے جو جمعہ کو دوکان بند کرتے تھے مگر حکم کے بعد دوکان پر نظر آئے۔۔۔تنہا!۔ پہیہ جام کر کے گاڑی بھگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔لا لو حساب! کوئی بتائے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ہڑتال معاشی جمود کا سبب تو بن سکتی ہے مگر اسے بہتری کی راہ پر نہیں ڈال سکتی۔معیشت جمود کا شکار ہو تو مہنگائی کا ختم ہونا مشکل ہے۔ ہرتالوں کی سیاست ویسے ہی اچھی نہیں اور اگر یہ مہنگائی کے خلاف ہو تو اسے عقل مندی کا نام دینا محال ہے۔ ××××××× کراچی میں بارش ہو گئی کل جمعہ کی نماز شروع ہوئی تو کافی تیز ہوئی مگر نماز کے اختتام سے قبل چلی گئی۔۔مگر آج صبح تو کمال ہو گیا خوب بارش ہوئی۔۔اہل کراچی کو یہ نعمت ملی مگر کئی جگہوں پر ناقض انتظامات کی وجہ سے یہ نعمت باعث زحمت بن جائے گی۔۔۔۔ساون پورا اس کے انتظار میں گزرا اور یہ آئی تو بھادوں کی ٢٥ تاریخ کو کر لو حساب۔۔۔۔!؟

9/03/2005

یہودی لڑکی سے شادی اور پاک اسرائیل تعلقات

ترکی میں قصوری صاحب نے اپنےاسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کی ۔یہ پاکستان و اسرائیل کے درمیان سرکاری سطح پر باضابطہ پہلا رابطہ ہے۔۔۔۔اس سے قبل مکا لات والا معاملہ تھا۔۔۔ملاقات کے بعد عرض کیا کہ ہم ان(اسرائیل) سے ملے ہیں مگر ان کو ایک ملک نہیں مانتے۔۔۔بات کچھ پلے نہیں پڑی۔۔۔کوئی پوچھے سرکار! بندہ اس سے ملتا ہے جس کے وجود کو مانے ہم نہیں کہتے “قانون بین الاقوام“ کہتا ہے۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟ مزید کہا کہ ملاقات سے پہلے فلسطین کے صدر محمود عباس اور سعودی عرب سمیت آٹھ مسلم ممالک کو اعتماد میں لیا۔فلسطینی ذرائع نے تردید کر دی کیسا اعتماد؟مئی میں اسلام آباد میں ملاقات (دونوں ممالک کے صدر کے درمیان) کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہے۔۔۔۔اہل فلسطین نے غزہ میں پاکستان کے اس اقدام کے خلاف مظاہرہ کیا اور “دشمن سے ملاقات نامنظور“ کے نعرے لگائے۔۔۔اپنا جانا تو یہ نعرہ لگایا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ “دشمن کا دوست دشمن “ والا نعرہ بھی لگ سکتا تھا۔۔۔ احتیاط لازم ہے ورنہ یہ تعرہ لگ سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کو ملک تسلیم کرنا نہ کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔۔۔اچھا! اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے یا نہیں؟ (اب تک ستاون میں سے سات ممالک نے اسے تسلیم کیا ہے۔جویہ ہیں، مصر ، اردن ، ترکی ، موریطانیہ، قازقستان، ازبکستان ، اور کرغیزستان)۔۔۔۔اب صدر سے نہ پوچھے وہ تو تقریر کی تیاری کر رہے ہیں ارے وہ ہی جو انہوں نے یہودی لابی سے کرنی ہے۔۔۔باقی بچے اپنے شجاعت تو انہوں نے تو الٹا سوال کر ڈالا “بھائی ان مجلس والوں سے پوچھوں کہ اگر یہودی لڑکی سے شادی ہو سکتی ہے تو یہودیوں سے مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے“ ہون آرام ایں