Pages

5/30/2005

قصوری کی نیند

یہ خبر اتور انتیس مئی کی "نوائے وقت" کے صحفہ بارہ (جو آخری ہوتا ہے) میں پڑھی ذرا ملاحظہ ہو "اسلام آباد (آئن لائن) وزیز خارجہ خورشید محمود قصوری ہفتہ کو او آئ سی کی نامور شغصیات کے کمیشن کے دو روزہ اجلاس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم شوکت عزیز کی تقریر کے دوران سٹیج پر بیٹھے سوگئے جس پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے او آئی سی کے سیکٹرری جنرل اور ملائشیا کے وزیر خارجہ مسکراتے رہے جبکہ شرکاء بھی یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے خورشید قصوری وزیر اعظم کی تقریر سے بے نیاز نیند کے مزے لیتے رہے اور گہری نیند میں جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف خراٹے مارنے شروع کر دیئے بلکہ خود کلامی بھی شروع کر دی اس پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے او آئی سی کے سیکٹرری جنرل اور ملا ئشیا کے وزیر خارجہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے جب کہ وزیر اعظم کی تقریر ختم ہونے کے قریب آئی تو سیکورؕؕٹی والوں نے قصوری کو اٹھا نت کے لئے ایک اہلکار کو بھیجا جس نے جا کر وزہر خارجہ کی کرسی کو ہلایا تو یکدم قصوری نیند سے بیدار ہوکر بیٹھ گئے جیسے ہی وزیر اعظم کی تقریر ختم ہوئی تو سب سے ذیادہ تالیاں بھی قصوری نے ہی بجائیں"۔ اب آپ کیا تبصرہ کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

5/26/2005

اسلامی قانون،روشن خیالی اور ہم

کوئی قا نون کتنا ہی اچھا اور جامع کیوں نہ ہو اس نے کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر چا ہے جتنا ہی بہتر حل واضع کیا ہو مگراگرقانون کے نفار میں بد نیتی کا مظاہرہ کیا جائے تو ساری کاوش و محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔بنایا گیا اصول بس ایک دکھاوے کی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی سلوک ہمارے ملک میں اسلامی قوانین کے ساتھ ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل۲۰۳وفاقی شریعت کورٹ سے متعلق ہے اس کورٹ کا مقصدیہ ہے کہ یہ خود یا پاکستانی شہری کی تحریک پر یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی تحریک پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کسی قانون کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ صادر کرے کہ آیا یہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا متصارم نیز اسے کس طرح اسلامی خطوط کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔بعض احباب کی رائے میں دراصل اس کورٹ کا مقصدصرف دکھاوے کے طورپر نومولد قانون کے کان میں اذان دے کر اسے مسلمان بنانا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ مسلمان ہوا یا نہیں۔ مگرمیرا خیال یہ ہے کہ ایسا نہیں دراصل ہم ہی عملا ٹھیک نہیں۔ذرا شریعت کورٹ کے ان فیصلوں پر نظر ڑالیں اول :شریعت کورٹ نے سود سے متعلق ۲۲قانونی دفعات کو قرآن وسنت کے خلاف اور کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا
( ۱۴نومبر ۱۹۹۱)
دوئم-تمام قسم کی لاٹریاں اسلامی احکام کے منافی ہیں (۹جنوری ۱۹۹۲) ۔ سوئم-ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم خلاف اسلام ہے (فیصلہ ۲۳ اپریل ۱۹۹۲) ۔ اس طرح کے دیگر کئ فیصلے ہیں۔ ہم نے کتنے مانے؟۔ سود والے معاملے پر اپیل کی آٹھ نو سال معاملہ لٹکا پھر بھی سپریم کورٹ نے شریعت کورٹ کے معاملے کو درست قرار دیا تو وفاق نے نظر ثانی کی اپیل کی اور فیصلہ اپنے حق میں لے لیا جی لےلیا ۔لاٹری !پنجاب حکومت کی جانب تازہ مثال ڈھائی کروڑ کا انعام والی معلوم ہے نا!۔۔۔۔ملازمت میں کوٹہ! سسٹم ختم ہوا کیا؟ اب ذرا حدودکی بات ہو جائے۔ عرض ہے کہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا کوڑے مارنا اور سنگسار کرنا دونوں سزائے پاکستان کے قانون کےمطابق ہیں ،حدود آرڈینس ۱۹۷۹ء،یہ قانون ضیاء الحق نے دینی جماعتوں کے کہنے پر بنوایا تھا،مگر تسلیم کرنے کی بات یہ ہے ۵ جولائی ۱۹۷۹ جب سے یہ قانون لاگو ہوا اس قانون کے تحت سزا تو دی گئی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا،وجوہات بہت سی ہیں ،اول گواہان کے لئے رکھی گئی کڑی شرائط (ان کے لئے لازم ہے کہ انہوں نےگناہ کبیرہ نہ کیا ہو)کہ وہ تذکیہ الشعود پر پورا اترے،دوئم چوری کی صورت میں دو اور زنا کی صورت میں چار چشم دیدگواہ درکار ہیں،سوئم نام نہاد وہ این جی اوز جو مغربی فنڈ پر چلتی ہیں اور انسانی حقوق کا ڈھول بجاتی ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ زانی ہے!ہے تو انسان نا!۔۔۔۔۔ جہاں تک جدید سہولیات کے ذریعے زانی یا چور ثابت ہونے پر حدود لاء کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں علماء اکرام کا مشترک فتویٰ یا اجتہاد درکار ہے کہ آیا ڈی این اے ٹیسٹ ،یا کوئی آڈیو یا ویڈیو ٹیپ جو کسی جرم کو ثابت کرے اُسے کس حد تک شہادت کے طور پر قبول کیا جائےاور کس حد تک نہ کیا جائے،علماء اکرام و مفتی حضرات میں اس سلسلے دو مختلف اراء ہیں کچھ کی رائے میں حدود کا نفاذ ممکن ہے اور چند اس با ت سے انکاری ہیں،بحرحال کچھ بھی ہو لیکن امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں ایسی شہادت حدود کے نفاذ کا ذریعہ بن جائے گی،مگر اگر ابھی کسی فرد پر حدود کا نفاذ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہ ہے کہ مجرم کو کچھ نہ کہا جائے گا بلکہ اس پر تعزیر کا نفاذ ہو گا یعنی مجرم کو کیا سزا دی جائے یہ قاضی پر ہے (معافی کی گنجائش نہیں) اور یہ عین اسلام ہے،پاکستان میں اس سلسلے میں مختلف قوانین موجود ہیں(تعزیرات پاکستان،ضابطہ فوجداری،ضابطہ دیوانی)۔ ان مشکلات کے علاوہ مجرم کو حدود کے مطابق سزایاب نہ کرنے کی ایک وجہ سیاسی ہے کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی دباؤ کہ یہ سزائے انسانی حقوق کے خلاف ہیں اور ہم روشن خیالی کے بخار میں مبتلا ان کے دباؤ میں آ کر یہ سزا نہیں دیتے،اللہ ہمیں توفیق عطا کریں کہ ہم دوسروں پر یہ ظاہر کرنے کہ بجائے کہ ہم روشن خیال ہیں یہ بتا سکے کہ انہیں ہمارے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ روشن خیالی کی بھی کیا بات ہے اس بیماری نے کیا کیا گل کھلائے ہیں ابھی لاہور میں اس مرض میں مبتلا افراد نے مخلوط میراتھن ریس کروائی آج خواتین سڑکوں پر مردوں کے ساتھ دوڑی ہیں کل گھروں سے دوڑی گی،بات یہ ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے لازم ہے عورت و مردشانے سے شانہ ملا کر چلے مگر شانے سے شانہ مارنہ ضروری نہیں ہے،عورت کو زندگی کے ہر شعبہ میں ہونا چاہئے مگر! مرد و عورت کو ہر لمحہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہئے،ہم روشن خیالی کی وباء میں مبتلا ہو رہے ہیں اور دنیا انتہاپسندی کی طرف مائل ہے،گوانتےموبے میں قرآن پاک کی شہادت،بھارت میں بابری مسجد کہ بعد ایک مسجد اور شہید کی جارہی ہے اور فرانس نے اسکاف پر پابندی لگادی۔ قرآن میں ہے "اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ" مگر پڑھے کون؟پڑھے تو مانے کون! اہل نظرذوق نظر خوب ہے لیکن جو حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
**********************
رات اسٹڈی کے دوران یہ جملے ذہن ہیں آئے ضبط تحریر میں لا رہا ہوں "محبوب بھی خدا کی طرح ہوتا ہے اس کی بھی پرستش کی جاتی ہے وہ اپنے عاشق کی ضروریات سے واقف بھی ہو تو چاہتا ہے کہ وہ اسے ہر ضرورت کے لئے پکارے اس سے ہاتھ اٹھا کر اپنی ضرورت کے لئے آگاہ کیا جاتا ہے اس سے بات کرنے کے لئے زبان سے گفتگو کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دل کی زبان پر استعفادہ کرنا پڑتا ہے،اس کے قریب جانے کے لئے جسمانی قربت کی نہیں بلکہ دلی قربت چاہئے،اسے راضی کرنے کے لئے گڑگڑانا پڑتا ہے،اس کی خوشنودی کے حصول کے واسطے ہر اس کام سے اجتناب کرنا پڑتا ہے جو اسے برا لگے اور ہر وہ کام کرنا پڑتا ہے جو اسے پسند ہو،اس تعلق میں بھی بندے کو توحید کا دامن تھامنا پڑتا ہے شرک یہاں بھی جائز نہیں"۔

5/24/2005

اسے مت پڑھے

جب میں میٹرک میں تھا تو اس دور میں میں نے یہ تحریر پڑھی حرف بہ حرف تو یاد نہیں مگر کچھ یاد ہے ممکن ہے کہ آپ نے بھی پڑھی ہوں کچھ اس طرح تھی۔ "آپ نے اس تحریر کو پڑھنا شروع کردیا جبکہ عنوان میں اسے نہ پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے،آپ سے ایک بار پھر التماس ہے مزید پڑھنے سے اجتناب کرے اس میں آپ کے پڑھنے کو کچھ نہیں لہذا باز آجائے رک جائے وقت کے ضیائع سے گریز کریں،آگے نہ بڑھےتو بہتر ہے۔کیا بات ہے؟آپ منع نہیں ہورہےخدارا یقین کرے اس میں آپ کا فائدہ ہے رک جائے،بہت ہو گیا!عجب ڈھیٹ مٹی کے ہو! باز ہی نہیں آرہے،پڑھتے جا رہے ہو۔چلو اتناتم نے پڑھا کچھ ملا تم کو؟ نہیں نا!کچھ حاصل ہوا؟ اب تمہارا جواب نفی میں ہے،اس واسطے پھر عرض کرتا ہوں کہ اب آگے نہ پڑھنا،یار تم باز آنے والے نہیں معلوم ہوتے،کیا کرو کہ تم باز آجاؤ ،اب دیکھو میں آپ سے تم پر آگیا ہو کہیں تم سے تو نہ ہو جائے لہذا کچھ کرتا ہو،تم تو پڑھنے سے باز نہ آؤ گے ٹھیک ہے میں ہی لکھنا بند کردیتا ہو،ہون آرام ای"۔ کیسی لگی تحریر ؟اب ذرا یہ خالی جگہ تو پر کریں سموسہ کھایا نہیں اور جوتا پہنا نہیں کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں تھا۔

5/20/2005

تل

تیرے مکھڑے تے کالا کالا تل اؤے منڈیا سیالکوٹیا شعور میں آنے کے بعد جب پہلی مرتبہ گانا سنا تو لگا جیسے میرے واسطے گایا گیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ جناب یہ گانا تو نورجہاں نے میري پیدائش سے تیس پینتس سال پہلے کسی فلم کے لئے گایا ہے،شبہ کی وجہ ؟ میرے چہرے پر تل اور تعلق گاؤں روہیلہ سے ہیں جو ضلع سیالکوٹ میں ہے۔
اب معلوم ہوا ہے کہ جس طرح ایک دست شناس ہاتھ دیکھ کر آنے والے حالات سے آگاہ کرنے،قیافہ شناس چہرے سے نیت بتانے کااور ستارے کی چال کا حساب لگانے والا اس سے مستقبل کی زندگی کا پتہ دیتے ہیں سنا ہے تل بھی اس طرح انسانی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں
ہونٹ پر تل رکھنے والا فطرت کا مالک ہوتا ہے یہ ہمیشہ ہربات پر شرط لگانے کو تیار رہتے ہیں۔جلدباز قسم کے ہوتے ھَیں شاری ان کی دیرسے ہوتی ہے- ان کوعلیحدہ رہنا پسندہوتا ہے۔ہروقت اپنی اور اپنے خاندان والوں کی تعریف ہی کرتے رہتے ھیں ۔اور پیسے کے معاملے میں کنجوس ہوتے ھیں۔
تل کسی بھی طرف رخسار پر ہو تو ایسے اشخاص سنجیدہ اور مطالعہ کا شائق ہوتے ھیں -زندگی سیاست اور مذہبی نظریات کےلئے درمیانی راستہ اختیار کرتے ھیں۔ان کی خوشیوں کے لئے دولت کی ضر ورت نہیں ہو تی درویش قسم کی طبیعت رکھتے ہیں قنا عت پسند ہو تے ہیں
ٹھو ڑ ي پر تل الٹی یا سید ھی طر ف ہو ایسے لوگ قا بل شک زند گی کے ما لک ہو تے ہیں - لو گو ں سے محبت کر تے ہیں بلند حو صلہ اور کا مو ں میں ایما نداري و سیاست کےشوقین ہوتے ہیں دور کے ملکوں کے رسم و رواج سے اگاہی رکھتے ہیں لائق اور ذمہ دار ہو تے ہیں ملک یاخاندان کیلۓذمہ داري کے کام قبو ل کر نے سے گر یز نہیں کرتے
کند ھے پر تل عموما انتھک محنتی ہوتے ہیں یہ لوگ گھر یلو اطمینان حا صل کر نے کی خاطر بیرو ن ملک سفر اختیار کرتے ہیں اگر دائیں کند ھے پر تل ہو تو عاقبت اند یشی فہم اور شادي کیلۓ وفاراري کی علامت سمجھا جاتا ہے ہنر مندی ظاہر ہوتی ہے ،اگرتل بائیں کندھے پر ھو تو ہر مرحلہ پر مطمئین رہنے کی علامت ہے
کندھے سے کہنی تک جو بازو کا حصہ ہے اس پر تل خوش اخلاقی اور اچھی زندگی کی علامت ہے ازواجی زندگی خوشگوار ہوتی ہے اگر تل کہنی کے قریب ہو تو ایسا مرد ملٹری یا پولیس میں ملازمت کرتا ہے اگرتل کسی عورت کا ہوتو وہ نرسنگ یا ائیرہوسٹس کا پیشہ اختیار کرتی ہے مالی طور پر خوش قسمت ہوتی ہیں شادیاں ا ن کی دو ہوتی ہیں
اس قسم کے تل والےسیاحت کے شوقین ہوتے ہيں ان میں آرٹ اور ہنر کے جوہر زیادہ ہوتے ہیں جو کمانے کےلئے خوش بختی لاتے ہیں لیکن یہ لوگ کام کا بہت کم شوق اور لگن رکھتے ہیں
کلائی پر تل کفا لت شعاري اور بھروسہ کے قابل ہوتے کی دلیل ہے اگر عورت کی کلائی پر ہوتو ایک شادي اگر مرد کی کلائی پر ہو تو دو شادیاں ہونے کا امکان ہوتا ہے طاقت اورہمت میں اضا فہ د یتا ہے محنت سے کام کرنے کا رجحان پیدا کرتا ہے
الٹے بغل کے نیچے ہوتو زندگی کے ابتدائی سالوں میں سخت جدوجہد کرنی پڑے گی چالیس سال کے دولت کی نشادہی کرتا ہے جس سے زندگی کی تمام آسائش حاصل ہوتی ہیں ۔سیدھے بازو کے نیچے ہوتو خوشحالی کےلئے ثابت قدمی اور ہوشیاري کا اظہار کرتا ہے
جن کے ہاتھ پر تل ھوتا ہے ۔دولت،صحت اور تقریبا ہر چیز کی بہتات ہوتی ہے عموما بہت ذہین ہوتے ہیں تل کسی بھی انگلی پر ہو یہ مبالغہ آمیزي کا اظہار کرتا ہے زندگی کے اہم امور جن سے دوچار ہوتے ہیں ان کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے کھوٹ کو بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں۔

5/14/2005

نقطہ

کاغذ پر نقطہ کیا اہمیت رکھتا ہے؟تنہا۔۔۔۔۔۔شاید کچھ نہیں یا شاید مہت کچھ ۔۔۔بہت کچھ۔۔۔۔نقطہ نشانی آغاز۔۔۔۔آغاز کچھ بھی ہو کیسا ہی ہوکہی سے بھی ہو۔۔۔۔جیومیٹری کے ماہر کہتے ہیں ایک نقطہ پر تین سو اسی(۳۶۰)زاویے ہوتے ہیں۔وہ تین سو اسی راستوں کے سنگم پر واقعہ ہوتا ہے۔ہر راہ اسے تک رہی ہوتی ہے کہ شاید وہ اس راہ پر چلے۔۔۔۔اب اس کی مرضی وہ کس راستے کا انتخاب کرے۔۔۔۔نقطہ اپنے جیسے چند نقاط سے مل کر حرف بناتا ہے حروف لفظ کے وجود کا سبب بنتے ہیں اور الفاظ ایک جملہ کی تخلیق کرتے ہیں اور جملہ خیال کے اظہار کا ذریعہ۔۔۔۔۔خیال کی وجہ سے نقطہ کی پیدائش ہوئی اور اس نے اس کو دوسروں تک پہنچا کر اپنے ہونے کا جہاں احساس دلاتا ہے وہاں خیال کا مقصد بھی پورا کردیتا ہے۔۔۔۔ ایک نقطہ جو بظاہر بہت حقیر نظر آتا ہے لیکن ہے نہیں۔۔۔ ایک نقطہ نے مجھے محرم سے مجرم بنا دیا وہ دغا دیتے رہے ہم دعا سمجھتے رہے اس ایک نقطہ کی اونچ نیچ خدا سے جدا کردیتی ہے۔ خرم کو جرم بنا دیتی ہے۔ یہ ایک نقطہ دلیل کو ذلیل اور رحمت کو زحمت بنا دیتا ہے۔ مختصر یہ نقطہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔۔۔

5/07/2005

یوں کرنا

شام کو جب کبھی
خاموشی سے نہ تم بیٹھ سکو
تو اتنا تم کر لینا
میرے گھر کا نمبر ملا کر
مجھ سے کچھ باتیں کرنا
کچھ اپنے من کی باتیں کہنا
کچھ میرے دل کا حال سننا
پھر میری کسی بات پر
مجھ سے تم روٹھ جانا
میں تجھ کو منانے کی خاطر
تیرے پاس چلا آؤتو پھر
تم مجھ سے نہ ناراض رہنا
پھر دونوں مل کر سیر کو جائیں گے
شام ڈھلے واپس آئیں گے
شب تم مجھ سے جدا ہوکر
تھوڑا سا بے چین ہونا
رات میں بستر پر لیٹ کر
میرا خیال ذہن میں لانا
تم پھر سو جانا
رات کوتم سوتے میں سپنے میرے دیکھنا
صبح اٹھ کر میرا ایک کام کرنا
کل والے اعمال کو
آج دوبارہ دوہرانا
یہ سب نہ اگر تم کر سکو
تو میرے خیالوں میں کھو کر
خاموشی سے بیٹھے رہنا
-{میری اپنی تنگ بندی}-

5/03/2005

بے تکی کو بے طقی

پچھلے دنوں بہت سے دوست احباب و اردو بلاگرز نے اِملا کی غلطی کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی اور کہا ہے کہ میں نے بے تکی کو بے طقی غلط لکھا ہے ۔ تمام احباب درست ہیں۔ ایسا لکھنے کی ایک وجہ اپنے بے تکے پن کو ظاہر کرناہے۔

ایسا بے تکہ پن آپ کو انگریزی میں بھی نظر آئے گا تاکہ پڑھنے والا متوجہ ہو جیسے

school = skool , photo = Foto , college = kallege ,computer = kamputer

بعض اوقات کسی لفظ کو پڑھنے کا انداز [طریقہ] اِس کے معنوں کو تبدیل کر دیتا ھے اِس سلسلے میں ایک نہایت دلچسپ واقعہ جو ہمارے ماموں کا ہے ملاحظہ ہو،یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے،وہ انگریزی کا پرچہ دے کر آئے توبڑے ماموں نے اُن سے پرچہ لے سُننا شروع کیا کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں [اُن کی انگلش بھی میری طرح بس ایوے ہی تھی شاید] ایک مضمون "میرے دوست"کا ایک فقرے کو ماموں نے یوں سُنایا۔ We both go school to get her بڑے ماموں نے جملہ سنا اور چونکے پرچے کی پشت پر جملہ تحریر کرنے کو کہا تو وہ کچھ اِس انداز میں لکھا گیا۔ We both go school together یوں لفظ کا مطلب ہی تبدیل ہو گیا۔

ایسا ہی حال آپ اِس لفظ کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں۔ Assume = Ass+u+me اکٹھا پڑھنے پر "فرض کریں" اور توڑنے پر "آپ،میں کند ذہن" انگریزی زبان کے علاوہ لفظوں کا یہ کھیل اردو زبان میں بھی کھیلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ[مشہور مزاح نگار] اپنے ٹی وی ڈراموں میں کافی استعمال کرتے ہیں۔مثلاً مذاکرات ہوئے[بات چیت ہوئی]۔ مذاق رات ہوئے[رات میں کافی مذاق ہوئے] ۔

اِس طرح آپ کو تلاش پر بہت سے الفاظ مل جائے گے جن کو بولنے،پڑھنے یا لکھنے سے اِن کا مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے۔ یوں بات میں ایک مزاح کا پہلو آ جاتا ہے۔تحریر میں ہم قافیہ الفاظ کے بعد ایسے الفاظ کا استعمال ایک خاص قسم کی مزاح نگاری کا سبب بنتا ہے۔ اِس طرح بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو ایک شخص کی اپنی ذہنی پیداوار ہوتے ہیں، جیسے پاکستانی صحافت نے لفظ "لوٹا" بے ضمیر سیاست دانوں کے لئے بھی مخصوص کر رکھا ہے۔ایک ہی زبان کے یا مختلف زبانوں کے ہم آواز مگر مختلف معنوں والے الفاظ کا نہایت اعلٰی استعمال کیا جا سکتا ہے مثلاً

١۔ تمہارا کرکٹ کا شوق [اردو] اہل محلہ کے لئے باعثِ شوق[انگریزی] ہے۔

٢۔ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے[پنجابی میں کھوتا گدھے کو کہتے ھیں]۔

یوں لفظوں کا ہیرپھیر ذومعنی جملوں کا سبب بنتا ہے۔جو پڑھنے یا سننے والے کے لئے وقتی طور پر جہاں مسکراہٹ کا وسیلہ بنتا ہے وہاں ہی کہنے والے کے لئے بات کو گول مول کر کے بیان کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے آپ بے طقی کو بے تکی پڑھے یا بے طوق کی [مطلب بغیر طوق والی یعنی جو ہر قید سے آزاد ہو]۔ کیا کہا؟آپ نے کیسی بے تکی بات ہے ۔