Pages

1/15/2010

بوٹیاں نوچنے والے!

بعض معاملات پر جان بوجھ کر چُپ رہا جاتا ہے مگر ایک کنکر بولنے پر مجبور کر دیتا ہے، جن معاملات میں بولنا چاہئے ہم اکثر اس خوف سے کہ سامنے والے کا اختلاف مجھ سے نفرت میں نہ بدل جائے خاموشی اختیار کر لیتا ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ایسی بعض صورتوں میں خاموشی منافقت کے ذمرے میں آتی ہے، لیکن یہ عمل کئی اعتبار سے بہتر ہے۔
اگر کہنے کو بات نہ ہو تو خاموشی بہتر ہے بجائے اس کے کہ تنگ کرنے کو بات کی جائے، کئی مرتبہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی بات و خیالات میں بہت پختہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ کوئی دلیل و مثال بھی ہمیں اُس سے متزلزل نہیں کر سکتی یہاں تک کہ کئی حقیقتیں بھی افسانہ معلوم ہوتی ہیں مگر وجہ فساد وہ تب بنتی ہے جب ہم دوسروں کو قائل کرنے بجائے اُن پر اپنی بات تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس رویئے سے جس قدر ممکن ہو اجتناب کرنا چاہئے اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئےکہ ممکن ہے جسے ہم افسانہ سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت ہو۔ بے موقعہ و بے ربط بات اس کے سوا اور کیا تاثر دے گی کہ ہم اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنے کے خواہش مند ہیں ،مان جاؤ یا ڈر جاؤ، انتہا پرستی کیا یہ ہی نہیں؟
انتہا پسندی کا یہ رویہ ہم میں سے ہر کسی میں مختلف شکلوں میں موجود ہے۔
بزرگ کہتے ہیں بعض مرتبہ کانوں کا سنا اور آنکھوں کا دیکھا بھی دھوکہ ہو تا ہے۔ مگر رویے یہ بتاتے ہیں کہ یار لوگ پسند کا سنا جھوٹ تو سچ مان لیتے ہیں مگر پرکھے ہوئے سچ کو بھی ناپسندیدگی کی بنا پر رد کر دیتے ہیں۔
اللہ کے بندوں سیاست میں جو کہا جاتا ہے جو کیا نہیں جاتا، جو کیا جاتا ہے بتایا نہیں جاتا، جو مانگنا ہوتا ہے اُسے لینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ بوٹیاں نوچنے والے اکثر چھوٹ لگنے کا رونا روتے ہیں، آگ لگانے والے پانی لاؤ کا شور مچاتے ہیں، گولیاں مارنے والے ارے مار دیا کا واویلا مچاتے ہیں، تب اُن کے چاہنے والے انہیں صدیوں میں پیدا ہونے والا مسیح بتاتے ہیں ۔
یہ باتیں کسی کے لئے لکھی ہیں!

6 تبصرے:

خرم نے لکھا ہے کہ

اگر آپ کا اشارہ میری پسندیدہ جماعت اور میرے محبوب قائد کی طرف ہے تو پھر آپ انتہائی متعصب انسان ہیں جو بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا اشارہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرف ہے تو بالکل حق بات کہہ رہے ہیں۔ ابھی ہمارے قائد نے بھی کل اپنے بیان میں یہی بات فرمائی ہے کہ عوام اپنے دشمنوں کو (دوسری سیاسی جماعتوں کو) پہچانے۔

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

یہ آپ نے بالکل وہی بات کی ، جسکے طعنے ہماری گھریلو خواتین کو ملتے ہیں۔ یعنی بظاہر بہت اچھی طرح ملتے رہیں، مگر دلوں میں نفرتیں اور منافقتیں پالتے رہیں۔ گھروں کی بنیادیں ہل جائیں وہ ڈھے جائیں مگر منافقت کی خاموشی اختیار کرے رہیں۔ اور نوبت یہ آتی ہے کہ جب سیزر مرنے لگتا ہے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں سے دوستوں کو تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو حیرانی سے اپنے عزیز ترین دوست بروٹس کے ہاتھ میں خنجر دیکھکر کہتا ہے۔'بروٹس یو ٹو'۔ یعنی اے شخص تمہیں تو میں دوست سمجھتا تھا۔ مگر تم بھی ان میں شامل ہو۔ تو کیا اس صورت حال سے یہ بہتر نہیں کہ ہم جن سے ملیں ان سے اس اعتماد سے ملیں کہ انہیں اور ہمیں دونوں کو پتہ ہو کہ معاملہ کیا ہے۔
اسی کے لئیے پروین شاکر نے کہا کہ
تمام عمر کی نا معتبر رفاقت سے
کہیں بھلاہے کہ پل بھر ملیں، یقیں سے ملیں
جی ہاں، آپ نے درست فرمایا کہ کسی پہ اپنی رائے ٹھونسنی نہیں چاہئیے۔ لیکن اس چیز کا فیصلہ کون کریگا کہ کون رائے ٹھونس رہا ہے۔ اسی نکتے کو آئنسٹائن نے نظریہ ء اضافت کا نام دیکر شہرت پا لی۔ دیکھا آپ نے بیسویں صدی کے سب سے ذہین دماغ نے کتنی عام سی بات کو دریافت کیا اب اگر میں کہوں کہ یہ ایسی کون سی بات تھی تو میرے اقارب اور عزیز ترین دوستوں کے علاوہ سب کہیں گے کتنی مغرور ہیں۔ حالانکہ بات اتنی سی ہے کہ سوچ و فکر پہ کسی کی اجارہ داری نہیں۔ اور یہ غرور تو آپ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ لوگوں کو قائل کر لیں کہ وہ آپکے خیالات پہ عملی تجربات بھی کرنا چاہیں۔ آئنسٹائن اس لحاظ سے خاصہ خوش قسمت تھآ۔ یہاں پہ آکر قسمت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

جناب شعیب صفدر گھمن صاحب
آپ نے درست کہا اور میں سمجھتا ہوں کے میرے لئے کہا اسلئے میں اس پر سنجیدگی سے غور کروں گا ۔ البتہ اپنے زندگی بھر کے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر مشورہ دوں گا کہ جو بات پسند کی وجہ سے نہیں دلیل اور تجربہ کی بنا پر سچ سمجھیں اُس پر قائم رہیں ۔ اِن شاء اللہ کبھی ناکام نہیں ہوں گے مگر کسی ایسے شخص کو قائل کرنے کی کبھی کوشش نہ کریں جو قائل نہ ہونا چاہتا ہو یا جو یہ سمجھتا ہو کہ اس کے پاس بہت یا جدید علم ہے ۔ اس طرح آپ اپنا وقت ضائع کریں گے اور مغز بے حاصل کھپائیں گے

Abdullah نے لکھا ہے کہ

میں بجا ارشاد فرمایا آپ نے! یہ چائنا ترکی اور دیگر یورپین ممالک پر بھی ہم نے اپنی سوچ مسلط کردی ہے اور وہ سب بے چارے ہماری انتہاء پسندی سے ڈر کر ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں!
تیز رفتار ترقی کراچی کی بین الاقوامی شناخت بن گئی،قونصل جنرل چین
http://ejang.jang.com.pk/1-15-2010/pic.asp?picname=142.gif

http://ejang.jang.com.pk/1-15-2010/pic.asp?picname=1414.gif

کیاآپ بتانا پسند کریں گے کہ میرے اس تبصرے میں بد تہزیبی کہاں تھی جس کی بناء پر آپنے اسے مٹا دیا؟

Osaid نے لکھا ہے کہ

کیا کر سکتے ہیں، یہاں پر مار کر جنازہ پڑھنے کی سیاست بہت پھل پھول رہی ہے۔۔ ۔

ابوشامل نے لکھا ہے کہ

شعیب بھائی کیا شاندار جملہ لکھا ہے کہ "یار لوگ پسند کا سنا جھوٹ تو سچ مان لیتے ہیں مگر پرکھے ہوئے سچ کو بھی ناپسندیدگی کی بنا پر رد کر دیتے ہیں۔"
میری ذاتی رائے میں جس سچ سے فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو اسے نہ ہی بولا جائے تو بہتر ہے یا پھر انتظار کیا جائے کہ درست موقع پر درست انداز میں اسے بیان کیا جائے۔ بے محل گفتگو بہت سارے معاملات کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔