Pages

1/11/2009

اصل دہشت گرد اور ہم ملزم

آج کل تہذیبوں کا تصادم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے جاری ہے، جس میں ظالم یا دہشت گرد قرار دیا جانے والا خود کو بے قصور ثابت کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ یہ میڈیا کی دنیا ہے اور یہ میڈیا ہماری پولیس سے بھی آگے، کہتے ہیں پاکستانی پولیس کی چھتر پریڈ سے شیر خود کو بکری کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا شیر کے بکری ہونے کا ایسا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ شیر خود ہی یہ باور کرنے جاتا ہے کہ وہ بکری ہے۔
اجمل قصاب پاکستانی ہے ایسا کسی اور نے نہیں پاکستانی نادان میڈیا نے دنیا کو ثابت کر کے دیا۔ یوں تو یہ معاملہ کافی حد تک ویسے ہی گھمبیر تھا کہ محمود میاں کی سمجھ ہی نہیں آئی وہ ہمارے ملک کے مشیر قومی سلامتی ہیں یا ۔۔۔۔۔؟ دوسرا شیری رحمان عرف عام میں سُٹے بار کے موبائل نمبر سے بی بی سی کو تصدیقِ ایس ایم ایس کی کچھ سمجھ نہیں آئی!
ہمارے حکمرانوں کے اعمال ہی ایسے ہیں! وہ اُن کو جو ہمارے ہی دشمن ہیں انعامات سے نوازتے ہیں! مسلم عوام اگر فرعون وقت کو الواداعی تحفہ میں جوتوں سے نوازتی ہے تو یہ اُس کے ساتھی  کو ہلال قائداعظم کے ایواڈ سے، ہمیں ویسے ہی اُس “باؤ“ سے “چڑ“ ہے!
اچھا تو بات کا آغاز ہو تھا دہشت گرد قرار دیئے جانے سے! اب تک یوں تو دہشت گردی کی تعریف ہی پر اتفاق نہیں ہو سکا مگر بھر بھی یہ کہا جاتا ہی جو کوئی کیفے، بس، باراز، ہوٹل وغیرہ میں بم دھماکا کر کے عام انسانوں کی جان لے دہشت گرد! اگر  یہ سچ ہے تو جس نے سب سے پہلے اس عمل کی بیاد رکھی وہ دہشت گردی کا بانی ہو گا ناں!!
تاریخ کا کسی کیفے میں پہلا بم دھماکا 17مارچ 1937 کو یافا میں یہودیوں نے کروایا، بم کا پہلا استعمال فلسطین میں اسی سال اگست و ستمبر میں یہودیوں کی جانب سے کیا گیا، ھفیاء شہر کے بازار اگلے ہی برس جولائی کی چھ کو بم دھماکہ کا نشانہ اہل یہود کی مہربانی سے بنے۔ 1946 میں بائیس جولائی کو انہوں نے ہی القدس شہر کے ہوٹل میں بم دھماکا کروایا۔ اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست اسے کی کارناموں کی سامنے آئی ہے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔