Pages

9/25/2005

پکوڑے

رمضان کی آمد آمد تھی مٹر اور آلو اور آلو مٹر کھا کھا کر افسر کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ عام دنعں میں آلوؤں کے چپس بنا بنا کر چائے کے ساتھ پیش کر دیئے جاتے تو کس حد تک تنوع کا احساس ہوتا لیکن رمضان میں تو دن میں کھانا پینا بھی موقوف ہوتا ہے۔ سو پی ایم سی نے میس کے ارکان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا کہ رمضان کے لئے مینو تیار کیا جا سکے۔ہم کافی پریشان ہوئے کہ میس میں آلو مٹر کے ڈبوں کے بعد صرف بہسب موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور صرف بیسن کے لئے ہوتے ہوئے کیا مینو تیار ہو سکے گا۔
اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ارکان کی تعداد اس دن اتفاق سے نو تک جا پہنچی تھی، تفصیل سے اجلاس کی اہمیت بتائی گئی اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی تجاویز اجلاس میں شرح صدر سے پیش کریں۔ ہم نے اجازت صدر یہ بات بھی گوش گزار کر دی کہ میس میں آلو اور مٹر کے ڈبع کے بعد صرف بیسن موجود ہے، تجاویز “میسر شدہ وسائل“ کی حدود میں ہوں۔
“بیسن سے کیا کچھ بنایا جاسکتا ہے“ ؟ وضاحت چاہی گئی۔
“پکوڑے“
“پکوڑے تو افطاری ہی میں ذیادہ لطف دیں گے اِس لیے انھیں افطاری ہی میں رکھا جائے“۔
“بجا“۔
“پہلے سات دنوں کا صرف افطارری کا مینو تیار کرلیا جائے“۔
“جیسا آپ چاہیں“۔
تو میس سیکرٹری آپ ہمیں افطاری میں کیا کچھ دے سکتے ہیں؟“۔
“جی پکوڑے“۔
“چلیں ایک دن تو پکوڑے ٹھیک ہیں۔ باقی دن ———؟“۔
“یہی سوچنے کے لئے اجلاس بلایا گیا ہے۔آپ تجاویز دیں“۔
“میس میں کیا کچھ موجود ہے؟“۔
“آلو اور مٹر“۔
“انہیں مارو گولی“۔ایک صاحب بھنائے۔
“ٹھیک ہے سر“۔
“اور کیا ہے؟“۔
“بیسن“۔
“بیسن سے کیا کچھ بن سکتا ہے؟“۔
“جی میرے علم کی حد تک تو پکوڑے بنائے جا سکتے ہیں“۔
“چلیں ایک دن تو طے ہو گیا لکھے اتوار کو پکوڑے“۔ایک صاحب نے اختلاف کیا“پکوڑے جمعرات کو کھائے جائیں اور معمولی بحث کے بعد یہ اختیار میص سیکر ٹری کو سونپ دیا گیا کہ جس دن وہ چاہیں پکوڑے بنالیا کریں۔چنانچہ ہم نے لکھا؛
مینو برائے افطار
پکوڑے برائے سوموار
“اچھا یہاں بازار میں کیا کچھ ملتا ہے؟“۔
“اول تو عصر کے بعد سے لوگ دکانیں بند کر کے اپنے اپنے گھر کو سدھار تے ہیں۔دوسرے ان کے ہاں کھانے کی اشیاء نہیں بکتیں۔ صرف ایک چھوٹی سی دوکان کھلی رہتی ہے۔ دیر سے آنے والے ڈرائیوروں کے لئے“۔
“ کیا کچھ ہوتا ہے اس کے پاس افطار کے لئے؟“۔
“جی پکوڑے“۔
وہ تو ہم میس میں بنا لیں گے“۔
“جی جی با لکل“۔
“کس دن رکھے گئے ہیں پکوڑے؟“۔
“جی سوموار کو“۔
“ویری ویل! میس میں اور کچھ نہیں مٹر آلو کے علاوہ“۔
“جی بیسن ہے نا“۔
“بیسن سے کیا کیا چیزیں بنتی ہیں“۔
“جی میں نے عرض کیا تھا نا ———- پکوڑے“۔
خاموشی کا ایک وقفہ۔
ویٹر کو آواز دی گئی۔ خانساماں کو طلب کیا گیا۔
یہ خانساماں مقامی باشندوں میں سے عارضی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ اصل خانساماں چھٹی پر تھا۔ وہ ہوتا تو شائد بیسن سے بہے کچھ بنا سکتا۔لیکن عارضی خانساماں اور پی ایم سی کے درمیان مذاکرات بری طرح ناکام ہو گئے۔سنیے ذرا؛
پی ایم سی اور خانساماں کے درمیان مذاکرات ، میس ممبران گوش بر آواز،
“تم افطار کے لئے کیا کیا کچھ بنا سکتے ہو؟“۔
“سب کچھ بنا سکتا ہوں سر جی“۔
“مثلا؟“۔
“سر جی ، ہر چیز بنا سکتا ہوں لیکن یہاں کوئی چیز ملتی ہی نہیں۔میس حوالدار پنڈی سے صرف ڈھائی من بیسن لایا ہے“۔
“بیسن سے تم کیا کیا چیزیں بنا سکتے ہو“۔
“سر جی پکوڑے“۔
“شٹ اپ“۔
اور پی ایم سی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔
تحریر=کیپٹن اشفاق حسین اقتباس =جنٹل مین الحمدللہ

5 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

ارے

گمنام نے لکھا ہے کہ

شاندار، مزہ آگیا پکوڑے کھا کے۔

عدنان مسعود نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ، یعنی کہ پکوڑے!

Unknown نے لکھا ہے کہ

پکوڑے کھا نے کے بعد تبصرہ کریں گے

Unknown نے لکھا ہے کہ

پکوڑے کھا نے کے بعد تبصرہ کریں گے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔